10 فروری ، 2016
کراچی......آج پاکستان کے شہرۂ آفاق مصور، خطاط، نقاش اور شاعر صادقین کی29ویں برسی ہے۔ مصوری اور خطاطی پر اپنے بے مثل نقوش چھوڑنے والے سید صادقین احمد نقوی نے کُل57 برس کی زندگی پائی
انھوں نے اپنی زندگی کو بھی اُسی شدت، اُسی جوش سے گزارا جس شدت اور جوش و جذبے سے وہ مصوری اور شاعری کیا کرتے تھے۔ بقول اُن کے انہوں نے میلوں کے حساب سے خطاطی کی اور ایکڑوں کے حساب سے مصوری کی ہے۔ قران کی اعلیٰ ترین خطاطی کرنے والے صادقین نے اسلامی آرٹ یعنی خطاطی کی نشاتہ الثانیہ کی۔
اُس کے اتنے زاویے پیش کئے کہ دیکھنے والے دم بخود رہ گئے۔ اُ ن کی سورۂ رحمٰن کی نقاشی سب سے نرالی ہے۔ ہر لفظ بولتا ہوا، ہر آیت خود معنی بیان کرتی ہوئی اور ذہن و دل میں اترتی ہوئی۔ صادقین نے مصوری کے منفرد نمونے پیش کر کے انہیں تخلیقی شاہکار بنا دیا۔
صادقین بہت اچھے شاعر بھی تھے، ان کی رباعیات بھی اُسی قدر کمال کی ہیں جس قدر اُن کی مصوری کے شاہکار کمال کا درجہ رکھتے ہیں۔ رباعیات میں بے ساختہ پن ہے، تسلسلِ خیال، فکر اور زبان و بیان کی بے ساختگی اور وارفتگی ہے۔ ان کے ہاں شاعری اور مصوری میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے، بلکہ مصور صادقین اور شاعر صادقین ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
بھرپور ستائش کے باوجود صادقین دنیا کی بھیڑ میں گم ہونے کی بجائے اپنے فن کی دنیا میں ہی مگن رہے، وہ اپنے آرٹ میں سرتاپا ڈوبے رہے۔ 1930ء میں پیدا ہونے والے صادقین 10فروری 1987ءکو کراچی میں انتقال کرگئے،اُنہیں سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک کیاگیا،لیکن اُن کا فن انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔