07 جون ، 2012
اسلام آباد … چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری اپنے بیٹے ارسلان افتخار کے خلاف غیرقانونی مراعات کے نوٹس کیس کی سماعت سے الگ ہوگئے ہیں، سپریم کورٹ نے ملک ریاض اور ڈاکٹرارسلان سے جامع جواب طلب کرتے ہوئے، ملک ریاض کے اثاثوں سے متعلق ایف بی آر سے تفصیلات طلب کرلیں، سماعت 11 جون کو دوبارہ ہوگی ۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے ارسلان افتخار نوٹس کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے بینچ میں چیف جسٹس کے بیٹھنے پر اعتراض کیا، جیو نیوز کے سینئر اینکر کامران خان کا کہنا تھا کہ عدالت کے وقار سے زیادہ کوئی چیز نہیں، عدالت کی حرمت پر حرف نہ آنے دینا ہر کسی کی ذمہ داری ہے، سپریم کورٹ جیسے ادارے کو کمزور کردیا گیا تو کچھ نہیں رہے گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے، ابھی تو بات 30 یا 40 کروڑ کی ہے، یہ نہ ہو کہ کل بات اربوں کی ہو، وہ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہیں علم نہیں کہ ارسلان کیا کاروبار کرتا ہے۔ کامران خان کا کہنا تھا کہ ملک ریاض نے انہیں دستاویز دکھائے جو ارسلان افتخار کو بیرون ملک سفر کرانے، مہنگی رہائش دلانے اور قیمتی شاپنگ کرانے سے متعلق تھے، تاہم ملک ریاض نے یہ دستاویزات ان کے حوالے نہ کیں۔ ملک ریاض نے بتایا کہ اعتزاز احسن کو بھی یہ شہادتیں دکھائیں تھیں۔ بعد میں چیف جسٹس نے عبوری آرڈر کرایا کہ وہ اس کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں نہیں بیٹھیں گے، اس کے بعد باقی 2 ججز نے کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاوٴن سے متعلق ایس ای سی پی کا ریکارڈ پیش کیا گیااس کے مطابق ملک ریاض کا بحریہ ٹاوٴن میں کردار نہیں رہا، حصص اب علی ریاض اور بینا ریاض کو منتقل ہوگئے ہیں۔ بحریہ ٹاوٴن کمپنی کے سیکریٹری شبر حسین نے عدالت میں پیش ہوکر بیان ریکارڈ کرایا۔ عدالت نے ڈاکٹر ارسلان کے وکیل کو کہاکہ جو کچھ ہے وہ بتادیں۔ جیوکے سینئر نمائندوں کے بیانات میں الزامات عائد ہوئے کہ ڈاکٹر ارسلان لندن جاتے رہے، پیسے ملک ریاض کی فیملی نے ادا کئے، بتائیں کہ کیا مونٹی کارلو نہیں گئے اور جوا نہیں کھیلا۔ جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ ججز کے اہل خانہ کو زیادہ محتاط رہنا چاہئے۔ ڈاکٹر ارسلان کے وکیل سردار اسحاق نے کہاکہ ابھی تو باتیں سنی سنائی ہیں، میں ثبوت پیش کروں گا۔ جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ ہمارے گھر کو آگ لگ رہی ہے، کسی کو اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ملک ریاض کے وکیل زاہد بخاری نے کہاکہ انہیں ایک ہفتے کی مہلت دی جائے، اب تک بیانات سے لگتا ہے کہ ملک ریاض نے کسی کو کوئی پے منٹ نہیں دی، ہوسکتا ہے وہ کیس میں نہ آنا چاہیں یا دستاویز دے دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ارسلان افتخار اس ادارے سے الگ کرکے دیکھا جائے۔ ججز نے جوابی ریمارکس دیئے کہ جو دستاویز یہاں آئیں وہ اس ادارے سے متعلق ہیں، عدالت نے آرڈر میں ملک ریاض اور ڈاکٹر ارسلان کو جامع جواب جمع کرانے کا حکم دیا جبکہ ملک ریاض اور علی ریاض کو آئندہ سماعت پر عدالت آنے کا بھی کہا۔ عدالت نے ایف بی آر سے ملک ریاض کے ٹیکس ریٹرنز، ویلتھ اسٹیٹمنٹس اور دیگر تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت 11 جون تک ملتوی کردی۔ آرڈر کے مطابق بینچ کی تشکیل نو کیلئے چیف جسٹس کو درخواست کی جاسکتی ہے۔