21 جولائی ، 2016
سپریم کورٹ رجسٹری میں کراچی بےامنی کیس کی سماعتکے دوران اویس شاہ اغوا کیس میں غفلت برتنے پرایس ایس پی،ایس پی رینک کے4افسران اور ڈی ایس پی رینک کے 24 افسران کیخلاف کارروائی جاری،چیف سیکرٹری اور آئی جی سندھ نے رپورٹ پیش کردی۔
عدالت کا کیمروں کی تنصیب سےمتعلق سمری 26جولائی تک پیش کرنے کی ہدایت۔کیس کی سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ بتایا جائے ناقص کیمرے کس کی منظوری سے لگائے گئےہیں۔
عدالت نے مددگار 15 کا وائس ریکارڈنگ درست کرنے اور کراچی میں نصب ناقص سی سی ٹی وی کیمروں کی انسٹالیشن سے متعلق ،تخمینہ اور سمری کی تفصیلات طلب کرلیں ۔
کراچی بدامنی کیس کی سماعت جسٹس امیرہانی مسلم کی سربراہی میں لارجر بنچ میں ہوئی۔ اس موقع پر چیف سیکرٹری سندھ اور آئی جی سندھ نے اویس شاہ کے اغوا سے متعلق رپورٹ پیش کی ۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایس ایس پی فاروق احمد، ایس پی اسد اعجاز، ایس پی امجد حیات اور اے ایس پی طارق نواز کے خلاف فرائض میں غفلت برتنے پر کارروائی کی جارہی ہے۔
عدالت نے چیف سیکرٹری اور آئی جی سندھ کی رپورٹ کو رد کرتے ہوئے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے متراف قرار دیا اور ریمارکس میں کہا کہ 20 جون کو سی سی ٹی وی کیمرے بھی خراب تھے۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نےریمارکس میں کہا کہ ٹیکنالوجی کے اس جدید دورمیں 2 میگا پکسل کے کیمرے لگا کر عوام کے 50 کروڑ روپے ضائع کئے گئے اس کا جواب کون دے گا ۔
چیف سیکرٹری سندھ کا کہنا تھا کہ ایک این جی او کی مدد سے کیمرے نصب کئے گئے تھے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیمرے کسی نے بھی لگوائے ان کی منظوری تو وزیراعلیٰ سندھ نے ہی دی تھی۔ معاملے کی تحقیقات نہ کی گئی تو کیس نیب کو بھیج دیں گے۔
جسٹس خلجی عارف نےریمارکس دئیے کہ کوئی بھی اپنی ذمے داری ادا کرنے کو تیار نہیں صرف چیف جسٹس کے بیٹے کی بات نہیں، ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے سندھ میں رینجرز کے قیام سے متعلق موجودہ پوزیشن کے سوال پر کہا ہے کہ معاملہ عدالت کا نہیں انتظامیہ کاہے وفاق اور صوبائی حکومت خود طے کریں عدالت مداخلت نہیں کرے گی۔
عدالت نے 28 جولائی کو اویس شاہ کے اغوا اور خراب سی سی ٹی وی کیمروں سے متعلق جامع رپورٹ طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو بھی طلب کرلیا۔