15 جون ، 2012
اسلام آباد… چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے وزیراعظم کی حمایت میں اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے خلاف دائر مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ اسپیکر نے ایک طرح سے عدالتی فیصلے کو کالعدم قرار دیا،کیا اسپیکر کو ایسا کرنے کا اختیار تھا ۔اس پراعتزاز احسن نے جواب دیا کہ جی ہاں انھیں اختیار تھا، اس پر چیف جسٹس نے اعتزاز سے کہا کہ اِس پرعدالت میں دلائل دیجئے گا۔اعتزاز احسن نے کہا کہ دلائل مکمل کرنے کیلئے پیر کو 1 بجے تک کا وقت دیجیے گا، ساری رات جاگتا رہا، میری آواز آج بیٹھی ہوئی ہے۔اس پرچیف جسٹس نے اعتزاز احسن کو پیر 11 بجے تک ابتدائی دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہکوشش کیجئے گا کہ 11 بجے تک دلائل مکمل کرلیں۔بعد میں عدالت نے اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت پیر تک کیلئے ملتو ی کردی ۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کیسے کہہ سکتا ہے کہ جیل میں بیٹھا سزا یافتہ وزیراعظم اپنے عہدے پر بھی قائم رہے ، وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے کہاکہ عدالت آئین میں درج تقسیم اختیارات کے اصول کو مدنظر رکھے ۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت کی ،اٹارنی جنرل عرفان قادر نے گزشتہ روز عدالت میں اپنی ہلڑ بازی سے گزشتہ روز عدالت میں پیش آنے والے واقعہ پر وضاحت کی ،اعتزاز احسن نے دلائل کے نکات پیش کرتے ہوئے سماعت کیلئے بڑا بنچ تشکیل دینے کی استدعا کی ، انہوں نے کہاکہ اسپیکر اسمبلی کا کام ڈاک خانے کا نہیں ہوتا وہ اپنا حق استعمال کرسکتا ہے، وزیراعظم کو سزا کا مطلب نااہلی ہر گز نہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ اپیل نہ کرکے عدالتی فیصلہ قبول کرلیا ہے، اعتزاز احسن نے کہاکہ ہم سزا قبول کی ہے نااہلی قبول نہیں کی کیونکہ وزیراعظم نااہل نہیں ہوئے، چیف جسٹس نے کہاکہ وزیراعظم سزا یافتہ ہیں، آپ اپیل کے دلائل دے رہے ہیں، بہتر ہوتا کہ آپ اپیل ہی کرلیتے، اعتزاز احسن نے کہاکہ وزیراعظم نااہل ہوتے تو ہی اپیل کی جاتی، میں اسپیکر کے آرڈر کا دفاع کرنے آیا ہوں،وزیراعظم کی خودبخود نااہلی نہیں ہوئی، سات رکنی بنچ نے غیر معروضی رویہ اپنایا، اس پر چیف جسٹس نے انہیں کہاکہ ججوں کے بارے میں ایسے الفاظ نہیں کہنے چاہئیں، اعتزاز احسن نے کہاکہ سزا کے خلاف اپیل نہ کرنے سے اس کیس کی کارروائی پر اثر نہیں ہوتا،چیف جسٹس نے کہاکہ ہم اس نکتہ نوٹ نہیں کریں گے کیونکہ اس کا موجودہ معاملے سے تعلق نہیں، اعتزاز احسن نے کہاکہ عدالت تقسیم اختیارات کے اصول کو مدنظر رکھے،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ اس نکتہ کا حوالے دے رہے ہیں جو انتخابی امیدوار کی نااہلی سے متعلق ہے، اعتزا زاحسن دو سال سے زائد سزا پر ہی ممبر اسمبلی نااہل ہوتا ہے، 30 سیکنڈ سزا پر نہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ کرپشن پر 1 سال سزا ہو وہ جیل بھیج دیا جائے ، وہ کرپٹ بھی ہو تو وہ وزیراعظم رہے گا؟آئین کیسے کہہ سکتا ہے کہ اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر بھی وہ وزیراعظم رہے گا، اعتزاز احسن نے کہاکہ یہ میں نہیں آئین کہہ رہا ہے۔اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ اسپیکر نے لکھا کہ وزیراعظم پر تضحیک کی فرد جرم عائد نہیں کی گئی، 18ویں ترمیم کے بعد اسپیکر پر لازم ہے کہ وہ معاملے پر خود فیصلہ کرے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسپیکر نے ایک طرح سے عدالتی فیصلے کو کالعدم قرار دیا،کیا اسپیکر کو ایسا کرنے کا اختیار تھا ۔اس پراعتزاز احسن نے جواب دیا کہ جی ہاں انھیں اختیار تھا، اس پر چیف جسٹس نے اعتزاز سے کہا کہ اِس پرعدالت میں دلائل دیجئے گا۔اعتزاز احسن نے کہا کہ دلائل مکمل کرنے کیلئے پیر کو 1 بجے تک کا وقت دیجیے گا، ساری رات جاگتا رہا، میری آواز آج بیٹھی ہوئی ہے۔اس پرچیف جسٹس نے اعتزاز احسن کو پیر 11 بجے تک ابتدائی دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہکوشش کیجئے گا کہ 11 بجے تک دلائل مکمل کرلیں۔بعد میں عدالت نے اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت پیر تک کیلئے ملتو ی کردی ۔