بلاگ
29 ستمبر ، 2016

شاہان مغلیہ اور صحافت

شاہان مغلیہ اور صحافت

 ظہیر الدین محمد بابر فرغانہ کی چھوٹی سی ریاست سے اُٹھا اور برصغیر میں روئے زمین کی عظیم الشان مغل شہنشاہیت کی بنیاد رکھی جس نے پوری دنیا میں اپنی طاقت کا لوہا منوا لیا۔

دنیا بھر میں شہنشاہ ہند کو مغل اعظم کہا جانے لگا‘ زندگی کے ہر شعبے میں حیرت انگیز ترقی ہوئی۔جس کے اثرات آج بھی برصغیر کے طول و عرض میں محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ ’تزک بابری‘ میں بابر نے ایک صحافی کی آنکھ سے معاملات کا مشاہدہ کیا اور برصغیر کے متعلق گراں قدر معلومات فراہم کیں۔

’ تزک بابری‘ ناصرف ادب کا شاہکار ہے بلکہ وہ ایک صحافی شہنشاہ کی ذاتی ڈائری بھی ہے۔ نصیر الدین محمد ہمایوں ایک شہنشاہ نہیں بلکہ ایک فلاسفر‘ ایک ستارہ شناس‘ عالم اور مفکر بھی تھا۔ بدقسمتی اُسے مغل سلطنت کے تخت پر بٹھا گئی۔ اُسے بھی نظم و نسق کی طرف توجہ کا موقع نہیں ملا اس لئے خبررسانی کے نظام کی درستگی کے لئے اس دور میں کوئی اقدامات نہیں اُٹھائے گئے تاہم اس کی بہن گلبدن بانو بیگم نے ”ہمایوں نامہ“ تصنیف کی۔

بابر اور ہمایوں نے اُس زمانے کے مروجہ خبررسانی کے نظام سے فائدہ اُٹھایا۔شہنشاہ ہمایوں نے جب اپنے کتب خانے کی سیڑھیوں سے گر کر دم توڑا تو اکبر کی عمر 13 برس تھی۔ یوں مغل اعظم کو مروجہ علوم و فنون حاصل کرنے کا موقع نہ مل سکا تاہم اُس نے غضب کا ذہن پایا تھا۔ اکبر نے علماء و فضلاء کی بہت قدر کی اور مراعات سے نوازا۔

اکبر کے دور میں اُس کی وفات (1605ء) تک فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ اُس کے وزیراعظم ابوالفضل نے ”آئین اکبری“ اور ”دربار اکبری“ نامی کتب لکھیں جس میں اُس دور کی چھوٹی سے چھوٹی بات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ ایک گراں قدر سرمایہ ہے جن سے ہمیں اُس دور کے حالات سے آگاہی ملتی ہے۔ شہنشاہ اکبر پہلا مغل حکمران تھا جس نے ایک جامع ابلاغی نظام قائم کیا۔

شاہان مغلیہ کے دور میں قلعہ معلی کے اپنے وقائع نگار ہوتے تھے‘ اُن کا کام یہ تھا کہ وہ دربار شاہی کی ساری کارروائی کا ایک روزنامچہ مرتب کریں۔ یہ لوگ مغل دربار کا چھوٹے سے چھوٹا واقعہ قلمبند کرتے۔ دوسرے دن یہ روزنامچہ مغل شاہی دربار میں شہنشاہ کے سامنے باآواز بلند پڑھا جاتا۔ اُسی وقت باج گزار ریاستوں اور دوردراز متعین امراء اور گورنرز کے نامہ نگار فوری طور پر تمام واقعات ”اخبار“ کی صورت میں مرتب کرکے (خوشنویسوں کے ذریعے) اپنے آقاؤں کو بھجوا دیتے اور روزنامچہ کی نقل بھی شاہی لائبریری میں محفوظ کر لی جاتی۔

خبروں کی فراہمی کے لئے ایک الگ محکمہ مغل شہنشاہ کی زیرنگرانی قائم تھا جس کا نگران اعلیٰ ”داروغہ ڈاک چوکی“ کہلاتا تھا لیکن وہ اخباری تنظیم کا افسر اعلیٰ نہیں تھا۔ اُس کا کام صرف خبریں پہنچانا تھا۔ شہنشاہ صوبائی اور اضلاعی خبرنویس خود مقرر کرتا تھا‘ اس طرح بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مغل شہنشاہوں نے جدید سائنسی خطوط پر ایک مربوط نظام قائم کیا جس سے بعد میں انگریزوں نے بھی فائدہ اُٹھایا۔

ایک طرف تو ”صحافت“ تھی‘ گو اُس کا کام ”مغل شہنشاہیت“ کا استحکام تھا اور صحافت کی ذمہ داریوں میں ریاستوں کا استحکام بھی ہوتا ہے اور بادشاہوں کے فرمان اسی نظام کے تحت عوام تک بھی پہنچا دیئے جاتے تھے۔ اُس زمانے میں بہترین خوش نویس موجود تھے اس لئے پرنٹنگ کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ اخبارات کی اشاعت ہوتی تھی اور تمام صوبوں کے گورنر اور اضلاع کے اعلیٰ حکام تک ”ابلاغ“ کا عمل بھی مکمل کیا جاتا تھا اور پھر مقامی انتظامیہ عوام کو ان احکامات اور خبروں سے آگاہی فراہم کر دیتی۔

اس طرح یہ نظام مرکزیت یعنی شہنشاہ اور پھر فرد تک قائم تھا۔ شہنشاہ ہی صوبائی اور ضلعی اخبار نویسوں کو مقرر کر سکتا تھا اور برطرف کر سکتا تھا۔ اخبار نویس کسی گورنر یا وزیر کو جواب دہ نہیں تھا لہٰذا اُس سے سب خوفزدہ رہتے۔ بعض اخبارات سربمہر لفافوں میں آتے تھے‘ انہیں کھولے بغیر شہنشاہ تک پہنچا دیا جاتا۔ نورالدین محمد جہانگیر، شہنشاہ شاہجہاں اور شہنشاہ اورنگزیب تک سب شاہان مغلیہ کا یہی دستور رہا اور بعد میں اس پر عمل درآمد نہیں ہوا اور یہی مغل سلطنت کا زوال کا ایک سبب بھی بنا۔ کچھ اخبارات روزمرہ امور کی خبروں پر مشتمل ہوتے تھے‘ انہیں داروغہ ڈاک چوکی کھولنے کا مجاز تھا‘ وہ ان سب کی سمری بنا کر شہنشاہ کی خدمت میں پیش کر دیتا لیکن اصل اخبارات بھی سمری کے ساتھ منسلک ہوتے تاکہ شہنشاہ کسی معاملے کی تفصیل کو جاننا چاہے تو اصل اخبار دیکھ سکے۔ ان معلومات کی روشنی میں شہنشاہ پنے احکامات جاری کرتا اور یہ سب درباری روزنامچے میں شامل ہو کر دوسرے دن شاہی ریکارڈ میں شامل ہو جاتے۔

شاہی اخبارات میں شاہی فوجی مہمات کی اطلاعات‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ معاشی‘ تجارتی اور زرعی خبریں درج ہوتی تھیں۔ کسی علاقے میں قحط پڑ گیا ہے یا کہیں سیلاب آ گیا‘ کہیں قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تو اس پر مغل دربار فوری طور پر حرکت میں آ جاتا۔ان اخبارات میں ہر قسم کی معاشرتی خبریں بھی شائع ہوتی تھیں اور براہ راست مقتدر اعلیٰ یعنی شہنشاہ تک رسائی بھی حاصل کر لیتی تھیں اس سے عوام بے حد فائدے میں رہتے کیونکہ سلطنت کے طول و عرض میں ناانصافی‘ بدنظمی‘ رشوت ستانی اور حاکموں‘ امراء اور سرداروں کی ظالمانہ حرکتیں بادشاہ کے براہ راست گوش گزار ہو جاتیں اور وہ فوراً ان کی روک تھام کرتا۔

اسی طرح اخباری تنظیم عوامی شکایات کے ازالے کا باعث بنتی جو آج کی پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت کا اہم فریضہ ہے۔