بلاگ
30 ستمبر ، 2016

مودی کا بھارت کتنا مختلف ہے ؟

مودی کا بھارت کتنا مختلف ہے ؟

پروفیسر اسٹینلے والپرٹ نے اپنی کتاب بھارت اور پاکستان میں لکھا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کے حل میں درپیش سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہوگی کہ اگلے الیکشن میں بی جے پی حکومت برسراقتدار آجائے جس کی قیادت مسلمانوں کے مخالف اور ہندوتوا کے علم بردار مودی جیسے کسی شخص کے ہاتھ میں ہو۔ اس کے برسراقتدار آنے کا مطلب ہوگا دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن کے تمام امکانات کا خاتمہ، جس کے بغیر مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں۔

پروفیسر اسٹینلے والپرٹ نے کتنی صحیح بات کی تھی۔ بی جے پی اقتدار میں آگئی، مودی وزیر اعظم بن گیا اور امن کی ہوگئی چھٹی۔ مودی کا بھارت کہیں زیادہ مختلف ہے، زیادہ انتہا پسند ہے سج کی سیاست ہندوتوا کی بنیاد پر ہے۔ اس سے سیکولر ریاست کے طور پر اس کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے. یہ نہ تو گاندھی اور نہ ہی نہرو، نہ اندرا اور یہاں تک کہ واجپائی کا بھارت بھی نہیں ہے. مودی نے بھارت کو اپنی ذہنیت کا یرغمال بنالیا ہے اور ملک کو انتہا پسندی کی جانب جھکا دیا ہے. یہاں تک کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کا صدر بھی بی جے پی کے ترجمان کی طرح بات کر رہا ہے۔

بی جے پی کے عسکری ونگ پاکستانی اداکار اور اداکاراؤں کو دھمکیاں دے رہے ہیں. بھارت کے مرکزی دھارے کے الیکٹرانک میڈیا کے ایک بڑے حصے کا لہجہ بھی اسی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے. بھارت نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ تعلقات بھی ختم کردیے ہیں اور کھیل کو بھی یرغمال بنایا ہے۔ مودی جانتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن آخری ایک روزہ سیریز 2013 میں منعقد ہوئی تھی جبکہ پاکستانی ٹیم نے بھی آخری بار بھارت کا مکمل دورہ 2008 میں کیا تھا. مودی اور انتہا پسندانہ ذہنیت کے تحت بھارت میں یہ تبدیلی آئی ہے۔

پہلے کرکٹ کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لئے استعمال کیا جاتا تھا جس کے لئے ʼکرکٹ ڈپلومیسیʼ کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی، جس کا آغاز مرحوم جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوا تھا. نوبت یہ ہے کہ بالی وڈ بھی مودی کے زیر اثر آگیا ہے، اور نہ صرف پاکستانی فنکاروں کو دھمکیاں دی گئیں، کنسرٹس میں گڑبڑ کی گئی، بلکہ بھارتی فلم انڈسٹری سے اٹھنے والی سمجھدار آوازوں پر بھی حملے کیے گئے۔

یہ سب  مودی کا بھارت ہے جس نے بھارت کے سیکولر چہرے کو بھی بدنام کیا ہے. کانگریس جیسی سیکولر جماعتیں، بھارت کی کمیونسٹ پارٹی اور دیگر جماعتیں بھی ایک آدمی کی ذہنیت کی یرغمال بن گئیں. کوئی تعجب نہیں کہ آخر کیوں بھارت سے کچھ دوستوں نے یہ بات کہی کہ "یہ شائننگ بھارت نہیں بلکہ انتہاپسند بھارت ہے"۔ اس مشکل وقت میں بھارت کے ہوشمند افراد کی تعریف کرنا ضروری ہے۔

معروف بھارتی اوم پور، کرن جوہر، سلمان خان، شاہ رخ خان اور بھارتی صحافی برکھا دت نے کتنا بہتر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ مودی کا بھارت پاکستان کے لئے نہیں بلکہ خود بھارت کے لیے ہی ایک چیلنج ہے. وہ جمہوریت اور سیکولر بھارت کے لیے ایک چیلنج ہے، بھارت کی پیشہ ورانہ صحافت کے لئے ایک چیلنج ہے. بھارت کا جنگی جنون مودی کی سیاست ہے۔ پاکستان سے نفرت کی پالیسی کے ذریعے وہ اگلے انتخابات جیتنا چاہتا ہے۔

مودی کی حکومت سے پہلے کبھی  بھارتی حکومت نے پاکستان کے صدر یا وزیر اعظم کی کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کی مخالفت نہیں کی. لیکن، ان کی حکومت میں متنازع ہوگئی. بھارت میں کچھ لوگ مودی کی حکومت سے اہم اقتصادی اصلاحات کی توقع کر رہے تھے مگر اقتصادی استحکام امن کے ساتھ مشروط ہے جس میں مودی کی حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں .

کشمیر میں مودی کا طرز عمل زیادہ سفاکانہ ہے ۔انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اور مودی کے بعض اپنے اتحادی رہنماؤں نے اس کی غیر انسانی پالیسیوں کی وجہ سے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے. برسوں سے پاکستانی رہنماؤں نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ امن چاہا ہے چاہے سویلین رہنما ہوں یا فوجی آمر۔ جنرل ضیاء الحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک سب بھارت کے ساتھ امن کے لئے اپنی کوششوں میں بہت آگے تک چلے گئے. اسی طرح، سویلین قیادت میں نواز شریف سے لے کر بینظیر بھٹو تک سب نے اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لئے سخت جدوجہد کی۔

پاکستان کبھی اس حد تک نہیں گیا کہ بھارت کے ساتھ کرکٹ یا ثقافتی تعلقات توڑ لیے ہوں. جی ہاں، کئی سال ہمیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مسائل درپیش تھے، لیکن، یہ بھی سچ ہے کہ نائن الیون کے بعد  سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ پاکستان کی ریاستی پالیسی ہے. کسی بھی ملک نے اس جنگ میں اتنی قربانی نہیں دی جتنی پاکستان نے دی. اس کے 65،000 سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئی اور شمالی وزیرستان سے لے کر سوات تک دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔

آپریشن ʼضرب عضب،ʼ اور نیشنل ایکشن پلان تاریخ ساز فیصلے تھے. پاکستانی ووٹر نے ہمیشہ لبرل اور اعتدال پسند لوگوں کو ووٹ دیا، جس سے خود ووٹر کی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے. مسلم لیگ ن سے لے کر  پیپلز پارٹی تک، اور تحریک انصاف سے لے کر اے این پی تک، تمام جماعتوں بشمول جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعتیں بھی بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو حل کرنا چاہتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میڈیا اور سول یا فوجی قیادت کی طرف سے کوئی جنگی ہسٹیریا پیدا نہیں کیا گیا ۔

ایل او سی کی خلاف ورزی پر پاکستان نے تحمل کا ردعمل دیا۔ اور جب ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ سے پاکستان کے ردعمل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا "ہم صرف جواب دیں گے اور اس کے لئے تیار ہیں لیکن پہل نہیں کریں گے"۔  

بھارت اچھی طرح جانتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں موجودہ بغاوت مقامی ہے، لیکن اس تحریک کو کچلنے کے لئے وہ بہیمانہ طاقت استعمال کر رہا ہے. جوہری ریاستیں یہ بات جانتی ہیں کہ وہ لڑ نہیں سکتیں بلکہ تباہ کر سکتی ہیں.

جو لوگ جنگ کے امکان کے بارے میں سوچتے ہیں وہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ دونوں جاپانی شہر دوسری جنگ عظیم میں رونما ہونے والے انسانی تاریخ کی بدترین آفت سے اب بھی مکمل طور پر باہر نہیں نکل سکے۔ لہذا، ایک ذمہ دار بھارتی وزیر کے منہ سے پاکستان کے ساتھ ʼایٹمی جنگʼ کا غیر ذمہ دارانہ بیان حیران کن اور چونکانے والا تھا.

کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک تنازعہ ہے اور کشمیر کے عوام اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں. بھارت جانتا ہے کہ جلد یا بدیر اسے مسئلے کو تسلیم اور حل کرنا ہوگا لہذا جب بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، تو وہ تاریخی طور پر غلط تھا. انہوں نے نہ صرف اپنے ملک کی بلکہ اقوام متحدہ کی تاریخ کی بھی نفی کی۔ چاہے دنیا کشمیر پر قراردادوں کو کوئی اہمیت دے یا نہ دے، تاہم کوئی بھی شخص 60 سال پرانی اس تاریخی حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتا۔ اگر کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہوتا تو اقوام متحدہ میں نہ جاتا۔

چالیس سال پہلے، کچھ نہیں تو بھارت اور پاکستان دونوں نے دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو حل کرنے پر اتفاق تو کیا تھا . بھارت، آج اتنا گرگیا ہے کہ یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے توڑنے کی بات کرتا ہے ۔یہ ممکن نہیں ہے. بھارت جانتا ہے کہ اس نے 1971 کی جنگ کے بعد پہلا ایٹمی تجربہ کرکے جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع کی۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ایٹمی پروگرام شروع کرنا پرا کیونکہ دنیا نے بھارت کو ایٹمی طاقت بننے سے نہیں روکا ۔

سن 1988میں تاریخ نے خود کو دہرایا اور پاکستان ایٹمی ریاست بن گیا۔ دنیا میں کسی بھی ملک نے اس جنگ میں اتنی قربانیاں نہیں دیں جتنی پاکستان نے دیں، جو تاریخی طور پر ہماری جنگ نہیں تھی ، بلکہ سی آئی اے کی تھی مگر ہم شکار ہوگئے اور ہمارے ہزاروں فوجیوں سمیت 65 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں۔ بھارت واقعی ایک حقیقی جمہوری اور سیکولر ملک ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ کشمیر میں استصواب رائے سے فرار ہونے کی کوشش کر رہا ہے. ʼکیا یہ کوئی غیر جمہوری مطالبہ ہے جسے سفاکانہ طاقت کے ذریعے کچل دیا جائے ۔  کس طرح آپ ایک مقامی بغاوت کو ʼدہشت گردیʼ قرار دے رہے ہیں۔ بھارت کے پاس کیوں کبھی وہاں کوئی مستحکم حکومت نہیں رہی۔

ساٹھ سال قبل اقوام متحدہ میں مسئلے کا بہترین حل بھارت خود کی طرف سے تجویز کیا گیا تھا جب اس نے حق خود ارادیت کو قبول کیا تھا. مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہوتا تو  شملہ سے لاہور اور لاہور سے آگرہ تک کیوں اس مسئلے کو دونوں ممالک کے درمیان ایک ʼتنازعہʼ کے طور پر تسلیم کیا گیا. آگے بڑھنے کا راستہ بات چیت  میں ہے جنگ میں نہیں.  بی جے پی کی ذہنیت ایسی ہے کہ وہ علی سردار جعفری کی نظم جنگ خود ایک مسئلہ ہے کی پیروی نہیں کریں گے ʼ۔ جب ایک ملک خود اقوام متحدہ میں مسئلے کشمیر کو اٹھاتا ہے تو وہ کیسے اس کا لازمی حصہ ہوسکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سشما سراج جی یہ بات جانتی ہوں گی. 

پاکستان میں کوئی جنگی ہسٹیریا اب بھی نہیں ہے  اور یہاں تک کہ اتنی کشیدگی میں بھی ایک دن کی معطلی کے بعد، ٹرین سروس ، ʼسمجھوتہ ایکسپریسʼ کی بحالی کی تصویر پاکستانی میڈیا کے صفحہ اول کی زینت بنی۔

بھارت کو مودی کی ذہنیت سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔  جس نے خود بھارت، اس کے معاشرے اور اس کے سیاسی کلچر کو خطرے میں ڈال دیا۔ پاکستان بات چیت کے لیے تیار ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بارہا کہا ہے ʼجنگ کوئی حل نہیں، بذات خود ایک مسئلہ ہے۔"