بلاگ
16 اکتوبر ، 2016

کراچی میں بلاول کے لئے چیلنجز

کراچی میں بلاول کے لئے چیلنجز

  ایم کیو ایم لندن اپنے دو دھڑے ایم کیو ایم (پاکستان) اور پاک سرزمین پارٹی بننے کے بعد دوبارہ قدم جمانے کے لئے کوشاں ہے، ایسے میں پی پی پی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مہاجر ووٹوں کو جیتنے کے لیے کراچی سے متعلق پارٹی کے بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا وہ ایسا کر سکتے ہیں؟۔

یہ ایک چیلنج ہو گا اور آج کی ریلی بالخصوص مقامی لوگوں کی شمولیت کے حوالے  سے اہمیت کی حامل ہے۔ 1987 سے 2013 تک کے انتخابات میں مہاجر ووٹ ایم کیو ایم کے لئے ڈالا گیا۔ لیکن، پی پی پی اب ایم کیو ایم میں انتشار کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کا موقع سمجھ رہی ہے، جو ایک اچھا سیاسی اقدام ہو سکتا ہے، اگر وہ اپنی سیاست بھی اس کے مطابق ہی کرے اور اس کی بدلتی ہوئی حرکیات کو سمجھے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی واپسی میں اب بھی چند سال درکار ہو سکتے ہیں، جس کے لئے پارٹی کو آج کے مقابلے میں بہت زیادہ کام اور محنت کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسے میں کراچی اسے شہری سندھ سے کچھ نشستیں جیتنے کا ایک موقع فراہم کررہا ہے، اگر پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات میں بھی ایک بار پھر اندرون سندھ میں کامیاب ہوگئی اور کراچی اور حیدرآباد سے بھی چند مزید نشستیں جیت لیں، تو اگلے انتخابات میں مینڈیٹ تقسیم ہونے کی صورت میں پارٹی کو سودے بازی میں مدد مل سکتی ہے۔ لہذا، پی پی پی کی نظریں اس وقت کراچی میں6 سے 7 سیٹوں پر ہیں۔

اس وقت اس کے پاس2 سیٹیں ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری آئندہ انتخابات میں نمبر گیم کی اہمیت جانتے ہیں اور اس لیے انہوں نے پارٹی کو کراچی پر توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت کی ہے. آج 18 اکتوبر 2007 ءکو کارساز کے قریب سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے استقبالی جلوس پر دو خودکش حملوں میں مارے جانے والے افراد کی یاد میں ریلی نکالی جارہی ہے۔

یہ ریلی کراچی میں پیپلز پارٹی کے مستقبل کی سیاست کیلئے اہمیت کی حامل ہو گی، خاص طور پر ایم کیو ایم میں بحران پیدا ہونے کے بعد. سیاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے 18 اکتوبر واقعہ کسی بھی سیاسی ریلی پر ہونے والا بدترین حملہ تھا جس میں تقریبا 200 افراد ہلاک اور 600 سے زائد زخمی ہو گئے تھے. پی پی پی یوم شہدا منائے گی۔

ایسے میں یہ ضروری ہے کہ بلاول سابقہ ​​حکومت سندھ سے پوچھیں کہ آخر کیوں اتنے بڑئ واقعے کی تحقیقات کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ ماضی میں کراچی میں پیپلز پارٹی کی طاقت اردو کے سوا دیگر زبانیں بولنے والے ووٹر تھے، بالخصوص سندھی اور بلوچ ووٹر۔ اور اس کے مضبوط حلقہ کراچی کے مضافات لیاری، ملیر رہے۔ بلاول شاید اس حقیقت سے اچھی طرح واقف نہ ہوں کہ پیپلز پارٹی کے پاس کسی زمانے میں اردو بولنے والے انتہائی مخلص کارکن تھے۔

ایم کیو ایم سے قبل اردو بولنے والے ووٹ  جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان اور ایم کیو ایم کے درمیان تقسیم تھے. جے یو پی، کا عملی طور پر، کراچی سے صفایا ہوچکا ہے، جب کہ جماعت اسلامی کو بھی کراچی میں مسائل کا سامنا ہے. 5 جولائی 1977 ء کو بھٹو کی گرفتاری کے بعد پی پی پی کے اردو بولنے والوں نے ماضی میں جدوجہد میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ پارٹی کی قیادت مرحوم امیر حیدر کاظمی، مسرور احسن، خلیل قریشی، ستائی اسحاق (اب ایم کیو ایم، لندن میں شمولیت اختیار کرلی اور جیل میں ہیں) جیسے مقامی رہنماؤں کے پاس تھی۔  

پیپلز پارٹی نے دو مرتبہ ڈپٹی میئر کے انتخابات جیتے تھے اور 1979 میں بلدیاتی الیکشن میں سب سے اونچی پوزیشن جیتتے جیتتے رہ گئی تھی۔ حال ہی میں منعقدہ بلدیاتی اور ضمنی انتخابات سے ایک بار پھر پی پی پی کو اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لئے امید کی ایک کرن ملی ہے. ایک طرف بلاول نے گزشتہ ایک سال میں پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں ہیں اور دوسری طرف وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے ساتھ کراچی کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے بھی ملاقاتیں کیں۔

وہ پارٹی میں اردو بولنے والے مضبوط سیاسی چہروں کو لانے کے فارمولے پر بھی کام کر رہے ہیں. وہ ایم کیو ایم کے اندر تقسیم کو دیکھ رہے ہیں اور پی پی پی صورت حال سے فائدہ بھی اٹھا سکتی ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ انہوں نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد ، وزیر اعلی سید مراد علی شاہ کے ساتھ طویل میٹنگ کی  اور ذرائع نے بتایا کہ تینوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ڈنر بھی کیا.  بلاول پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے عشرت العباد کے مستقبل کے کردار پر غور کر رہے ہیں. ماضی میں ڈاکٹر عشرت العباد نے قومی سطح پر اور خاص طور پر ایم کیو ایم کے سلسلے میں بہت سے سیاسی تنازعات حل کرنے میں سابق صدر آصف علی زرداری کی مدد کی تھی۔

اجلاس میں کیا طے پایا یہ معلوم نہیں ہو سکا  لیکن باوثوق ذرائع نے کہایہ موجودہ سیاسی تناظر میں ایک غیر معمولی ملاقات تھی۔ گورنر عشرت العباد ایم کیو ایم کے سابق رہنما ہیں جو 2002 سے اس عہدے پر ہیں  اور اسٹیبلشمنٹ کے بھی منظور نظر ہیں،۔ ماضی میں بھی  انہوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے کہا تھا کہ اگر وہ مہاجر آبادی والے علاقوں میں ترقیاتی کاموں ، نئے منصوبوں اور روزگار کے مواقع فراہم کرکے پیش رفت کرسکتی ہے۔

 "کراچی پیکیج پر عمل درآمد کے لئے بلاول نے نئے وزیراعلی کے ساتھ کئی اجلاس کیے ہیں، جو  غیر اردو بولنے والے علاقوں میں منصوبوں تک محدود نہیں ہے. اگرچہ ترقیاتی منصوبے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے فرق پڑسکتا ہے، لیکن بلاول کے لیے مضبوط مہاجر ووٹ کو اس بات پر قائل کرنا کافی چیلنج ہو گا کہ پیپلزپارٹی قومی جماعت ہے اور اینٹی مہاجر نہیں. شہر میں پی پی  پی کی سیاست اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے خاص طور پر بعد از ایم کیو ایم منظر نامے میں۔ اس نے کراچی اور حیدرآباد کو صرف ایم کیو ایم کے نقطہ نظر سے دیکھا اور ان کے ساتھ بنانے کی بجائے ان کے ساتھ سختی کی، جس کے نتیجے میں جب ان کے تعلقات میں کشیدگی آئی تو  آپریشن شروع کردیا، جسے اینٹی مہاجر کے طور پیش کیا گیا۔

یہاں تک کہ وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے تحت گزشتہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران بھی اردو بولنے والوں کی ہلاکتوں کے واقعات نے پرانی یادیں تازہ کردیں، اور ایم کیو ایم نے اس صورت حال کا اپنے حق میں پورا فائدہ اٹھایا۔ پیپلز پارٹی کو کراچی اور اردو اسپیکنگ کو مہاجر ووٹ بینک سے ہٹ کر دیکھنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی سندھ شہری کو واپس حاصل کر سکتی ہے اگر ان مسائل کو حل کردے جو ایم کیو ایم کی تشکیل کی وجہ بنے تھے۔

پیپلز پارٹی کا کراچی میں ووٹ بینک اس وقت کم ہونا شروع ہوا جب اس نے کراچی کو اردو بولنے والوں کے شہر کے نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کیا۔ بلاول بھٹونے خود اسی شہر سے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور مشہور تقریر کی، جس میں ان کا مشہور بیاںانکل الطاف، بہت مقبول ہو گیا. کیا وہ پیپلز پارٹی کو لیاری اور ملیر سے باہر وسیع کر سکتے ہیں. پیپلز پارٹی کا ماضی میں، ڈیفنس اور کلفٹن و غربی جیسے علاقوں میں مضبوط ووٹ بینک تھا، جو بعد میں پی ٹی آئی کے پاس چلا گیا۔

لہذا، کراچی میں آج کی ریلی اور یہ مستقبل قریب میں پی پی پی کی سیاست کو دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وہ ایم کیو ایم کے تقسیم رہنے سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرتی ہے یا نہیں۔ اپنی ساکھ کو بہتر بنانے اور پارٹی میں اردو بولنے والے اچھے چہرے لانے میں پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی رکاوٹ خود اس کے بعض اپنے اردو بولنے والے رہے ہیں ۔ لہذا اگر بلاول کراچی یا سندھ شہری کو خود سے جیتنے میں کامیاب ہوگئے اور انہوں نے دیہی اور شہری مراکز کے درمیان فرق کو کم کردیا تو پی پی پی بعض سیاسی پنڈتوں کو حیران کر سکتی ہے۔ لیکن، اس میں ایک بڑا اگر حائل ہے؟۔