08 نومبر ، 2016
علامہ اقبال جن اصحاب کی بہت قدر کرتے تھے ان میں جسٹس میاں محمد شاہ دین ہمایوں کا نام گرامی بہت نمایاں ہے۔ جسٹس شاہدین بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ ان کا ایک شعر زبان زدعام ہے اور ضرب المثل بن گیا ہے: ’اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی‘۔۔۔۔۔’دوڑو، زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘
مولانا عبدالمجید سالک لکھتے ہیں: ”جن بزرگوں نے مسلمانان ہند کی نشاۃ الثانیہ کے زمانے میں اپنے ذہن و فکر کو زمانہ حاضر کے تقاضوں سے وابستہ کرکے قوم میں نئی روح پھونکی اُن کی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مشرقی تہذیب و ثقافت سے مالامال تھے اور جدید رجحانات کے اخذ میں اپنے اخلاق و کردار کے پس منظر کو کبھی بھی فراموش نہیں کرتے تھے۔
ان بزرگوں کی اسی خوبی کی وجہ سے مسلمانوں کے ہر طبقے میں ان کو مقبولیت حاصل ہوئی اور ترقی کا کام آسان ہو گیا۔ ان بزرگوں میں جسٹس میاں محمد شاہ دین کا نام بہت ممتاز ہے۔“
شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے ”بانگ درا“ میں اپنی نظم ”اے ہمایوں“ میں میاں صاحب کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔’اے ہمایوں! زندگی تیری سراپا سوز تھی‘۔۔۔۔’تیری چنگاری چراغ انجمن افروز تھی‘
اس سے نہ صرف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ان سے کس قدر آشنا تھے بلکہ یہ اس زمانے کی طرف اشارہ ہے جب علمی صحبتوں میں یہ سب لوگ اکٹھے ہوتے تھے ۔میاں محمد شاہ دین لاہور کی مشہور میاں فیملی آف باغبان پورہ کے چشم و چراغ تھے جس نے تحریک پاکستان میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
سر میاں محمد شفیع اور میاں محمد شاہ دین مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ہیں۔ اسی فیملی میں بیگم گیتی آراء‘ بیگم جہاں آراء شاہ نواز پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر میاں عبدالرشید‘ میاں بشیر احمد‘ میاں منظر بشیر اور دیگر نے تحریک پاکستان میں بے شمار خدمات انجام دیں۔
میاں صاحب کی زمانہ طالب علمی کا مشہور واقعہ ہے کہ جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں تھرڈ ایئر کے طالب علم تھے‘ اُن کے ایک انگریز پروفیسر نے ان کے لکھے مضمون کو دیکھ کر کہا۔”مجھے یوں لگا جیسے میں لارڈ میکالے کو پڑھ رہا ہوں۔“
دسمبر 1894ء میں میاں صاحب نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے نویں اجلاس کی صدارت کی۔ اُن کے صاحبزادے میاں بشیر احمد کے مطابق سرسید احمد خان کا ذکر کرتے ہوئے والد مرحوم کی نگاہیں نم ہو جاتیں اور وہ فرماتے کہ سرسید احمد خان رہبر قوم تھے۔
جسٹس شاہ دین آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی رکن تھے۔ اس ضمن میں مسلمان رہنماؤں کی مشاورت اور بحث میں میاں شاہ دین نے بھرپور حصہ لیا جو مسلمان قومیت کی ہندوستانی سیاست میں جگہ بنانے کے لئے لارڈ منٹو سے کی گئیں۔ یہ وفد 1906 کو وائسرائے ہند سے شملہ میں ملا اور یہ ملاقات بعد میں منٹومارلے اصلاحات کا پیش خیمہ بنی۔ اس سیاسی کوشش کا پہلا انعام میاں شاہ دین کو پنجاب چیف کورٹ کا جج بننے کی صورت میں مسلمانوں کو حاصل ہوا جس کے بعد مسلمانوں کی قانونی قابلیت کو مغلیہ سلطنت کے خاتمے (1857ء) کے بعد پہلی مرتبہ تسلیم کیا گیا۔
دسمبر 1906ء میں جب میاں شاہ دین کو پنجاب چیف کورٹ(لاہور ہائی کورٹ) کا جج مقرر کیا گیا‘ اُس وقت وہ ہندوستان بھر کی تمام چیف کورٹس اور ہائی کورٹس میں واحد مسلمان جج تھے۔ 1908ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کی تیاری کے سلسلے میں مسلم لیگ کے کراچی کے اجلاس کی صدارت بھی جسٹس شاہ دین نے ہی کی۔
اس سے پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کی پنجاب برانچ تشکیل پا چکی تھی اور 30 نومبر 1907ء کو میاں محمد شاہ دین اس کے صدر منتخب ہو چکے تھے۔ اس طرح جسٹس شاہ دین کو برطانوی ہندوستان کے پہلے مسلمان جج ہونے کا‘ آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی رکن ہونے کا‘ آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کی تیاری کے سلسلہ میں اجلاس کی صدارت اور مسلم لیگ پنجاب کے پہلے صدر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
جسٹس شاہ دین کے صاحبزادے میاں بشیر احمد نے اُن کی یاد میں ”ہمایوں“ نام کے ایک ماہنامے کا اجراء کیا جو 35 سال تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ صحافت کے اساتذہ اور طالب علم جانتے ہیں کہ اُردو صحافتی اور ادبی تاریخ کے بڑے بڑے نام ”ہمایوں“ کے ذریعے منظرعام پر آئے۔
شاعر مشرق نے میاں صاحب کی تاریخ وفات پر لکھا ’’ میاں بشیر احمد لکھتے ہیں شاعر مشرق نے میاں صاحب کی تاریخ وفات پر لکھا۔’’میرے والد سے اقبال کے خاص تعلقات تھے۔ اقبال نے بھی بعض اشعار میں شاہ دین کا ذکر بڑی محبت سےکیا ہے۔ چنانچہ اس غزل کا جس کا مطلع ہے ’’لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے۔۔۔بجلیاں بیتاب ہوں جس کے جلانے کے لیے‘‘
ایک اور غیر مطبوعہ شعر اس طرح ہے۔ ’’ترک کر دی تھی غزل خوانی مگر اقبال نے۔۔۔یہ غزل لکھی ہمایوں کے سنانے کے لیے‘‘
میاں بشیر احمد ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’والد بزرگوار کے کاغذات میں ایک پرزہ نکلا جس کے ایک طرف ایک دعوت کی تقریب میں اقبال نے میز کی ایک طرف سے انہیں دو شعر لکھ کر بھیجے اور جواب میں والد نے اسی زمین میں شعر لکھا۔ دو دوستوں میں خوب نوک جھونک ہوئی۔
بعد میں حضرت علامہ سےکئی بار جو باتیں والد صاحب سے متعلق ہوئیں ان سے مجھے اندازہ ہوا کہ جن چند ہستیوں کی ان کے دل میں بہت قدر و منزلت تھی ان میں ایک والد بزرگوار بھی تھے۔ (سعید بدر پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں)