12 نومبر ، 2016
معروف مؤرخ ایچ جی ویلز نے ایک جگہ لکھاہے کہ سلطنتِ روما اس لیے زوال پذیر ہوئی کہ اس زمانے میں صحافت کا ادارہ موجود نہیں تھا، چنانچہ حکمرانوں کی جانب سے جو احکامات جاری ہوتے تھے انہیں سلطنت کے دور دراز علاقوں تک پہنچنے میں کئی کئی سال لگ جاتے تھے، اس صورت حال کی وجہ سے سلطنت کے بڑے حصے میں بدنظمی عام ہوتی چلی گئی اور بالآخر سلطنت کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آج تو میڈیا بہت طاقتور ہے اور چند لمحوں میں پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں خبر پھیل جاتی ہے پھر بھی حکومت مناسب کارروائی کرنے سے کیوں گریزاں رہتی ہے، ہمارے یہاں دھرنا سیاست کے ساتھ ساتھ اوئے کلچر تو متعارف ہو ہی چکا ہے لیکن اس کے خوفناک اثرات کا سامنا بے بس، مجبور اور لاچار عوام کے حصے میں آ رہا ہے۔
حکومت نے اسلام آباد میں دھرنا روک کر اپنی ذمہ داری نبھا دی کیونکہ عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے، لاہور میں دو ہفتوں سے ٹریفک جام ہونا گویا معمول بن گیا ہے، اس کی وجہ یہ احتجاجی مظاہرے ہیں، جس کا دل چاہتا ہے دھرنا شروع کر دیتا ہے، چند لوگ کہیں بھی سڑک پر دھرنا شروع کر دیتے ہیں اور جگہ ایسی منتخب کی جاتی ہے جس سے زیادہ سے زیادہ لوگ تنگ ہوں تاکہ ارباب اختیار فوری ایکشن لیں، اپنے مطالبات منوانے کا یہ طریقہ سراسر غیر اسلامی، غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہے۔
چند روز قبل پنجاب یونیورسٹی کے طالب علموں نے کینال روڈ بلاک کر دی جس سے لاہور میں بدترین ٹریفک جام ہو گیا، ایک طرف یہ حال ہے کہ
'ایک اور گڑھے کا سامنا تھا زابر مجھ کو'
کے مصداق تقریباً سارا لاہور ہی کھدا ہوا ہے یا کھدنے جا رہا ہے، اسی طرح اب کہا جا سکتا ہے کہ لاہور میں نہ جانے کب دھرنا آ جائے یا کھدائی نظر آ جائے یا کہیں بھی کسی نے گیٹ لگا کر روڈ کو ابا جی کی جاگیر سمجھ کر بلاک کر رکھا ہو یا پھر اچانک کسی روڈ پر اتنے زیادہ اسپیڈ بریکرز سے واسطہ پڑ جائے کہ اگر منیر نیازی حیات ہوتے تو کچھ یوں گویا ہوتے
ایک اور سپیڈ بریکر کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک گڑھے کے پار اترا تو میں نے دیکھا
شاہراہ قائداعظم پر گزشتہ چند دنوں سے ینگ ڈاکٹروں کے دھرنے کی وجہ سے لاہوریوں کو یوں لگتا ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں کے ناکردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہے، بد ترین ٹریفک جام معمول بن چکا ہے اور قوم کے نام نہاد مسیحا احتجاج کے نام پر غیرت اور حمیت کا مزاق اڑاتے ہوئے گویا پکنک منا رہے ہیں، جوس پئے جا رہے ہیں، خوش گپیاں چل رہی ہیں، جیسے قوم کا، حکمرانوں کا، اپنے اسلاف کا اور اپنے بزرگوں کا مذاق اڑا رہے ہوں۔
ان کی دیکھا دیکھی اساتذہ اکرام کیوں کسی سے پیچھے رہتے، ان کا بھی دھرنا شیڈول جاری ہو چکا ہے، گزشتہ روز ینگ ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ ایک اور سرکاری محکمے کے ملازمین بھی دھرنا دے رہے تھے، لاہور کی تمام بڑی مصروف شاہراہوں پر بیچارے عوام 21ویں صدی میں اپنی پیدائش کو کوس رہے تھے۔
آخر ارباب اختیار کب اپنا اختیار استعمال کریں گے؟ آخر کس نے ان دھرنیوں کو یہ حق دیا ہے کہ ظالمانہ طریقے سے اپنے مطالبات منوائیں، ان کے مطالبات جائز ہیں یا نہیں ہم اس بحث میں نہیں پڑتے لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں سرکاری اسپتالوں اور سرکاری اداروں کے ملازمین ہر دوسرے دن مظاہرے کرتے ہیں جن کے تنخواہیں پہلے ہی پرائیویٹ سیکٹر سے کئی گنا ہیں۔
ایک روز قبل ہی چیف جسٹس نے کہا ہے کہ سرکاری اداروں میں صرف عیاشی ہو رہی ہے، حکومت کو چاہئے کہ ان ظالموں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے تا کہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں اور ان لوگوں کو احساس ہو کہ ان کو مریضوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی آزادی نہیں ہے، دھرنے کے باعث ٹریفک میں پھنسی ایمبولینسوں میں مریض تڑپتے رہے، جبکہ ڈاکٹرز اپنے شغل میلے میں لگی رہے، علاج کی جگہ احتجاج کرنے والے مسیحاؤں کے آگے لاہور کے شہری بے بس اور لاچار ہوگئے، دوا دینے والے ہی لاہور والوں کے لیے وبال جان بن گئے، اسپتالوں میں مریض اور سڑکوں پر عوام رل گئے۔
ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے باعث اسپتال آنے والے مریض دن بھر ادھر سے ادھر پھرتے رہے اور اپنوں کے علاج کے لیے انتظار کرتے رہے، صرف مریض ہی نہیں اس دھرنے کی سزا لاہور کی سڑکوں پر سفر کرنے والے شہریوں کو بھی بھگتنی پڑی۔
مال روڈ کے ساتھ ساتھ ڈیوس روڈ، کینال روڈ، گڑھی شاہو اور دیگر اہم شاہراہوں پر بھی ٹریفک جام رہا، سڑکوں پر ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم ہونے سے شہری اور مریض در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے جبکہ واٹر مینجمنٹ پنجاب کے ملازمین کے دھرنے کی وجہ سے بھی سڑکوں کے بند ہونے کے باعث ٹریفک جام سے پورے شہر کی ٹریفک کا نظام بھی گزشتہ روز درہم برہم رہا، چچا غالب کیا خوب کہہ گئے ہیںکہ
شرم تم کو مگر نہیں آتی