17 نومبر ، 2016
آخر کار یہود و نصاریٰ اور ہنود کے گٹھ جوڑ نے مسلمانوں کی غیرت و حمیت کو ایک نئے انداز سے للکارا ہے۔ گستاخانہ خاکوں سے اب بات اذان تک چلی آئی ہے پہلے آزادی اظہار رائے کے نام پر مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے گئے اب اذان ان شیطانوں کی ناپاک سماعتوں پر گراں گزر رہی ہے۔
ان شیطانوں نے اس کا آغار قبلہ اول بیت المقدس سے کیا ہے ۔اگر آج بھی اربوں مسلمان اکھٹے نہ ہوئے تو پھر داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہوکا کہنا ہے کہ وہ مساجد میں اذان کی تعداد میں کمی کے بل کی حمایت کریں گے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس بل کے ذریعے اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو روکا جائے گا۔نیتن یاہو نے اپنےایک بیان میں کہا کہمیں تعداد شمار نہیں کرسکتا، مجھے تمام مذاہب کے شہریوں کی جانب سے لاؤڈ اسپیکرز کے شور کے حوالے سے شکایات موصول ہوئیں جس کا تدارک کرنا اسرائیلی حکومت کا فرض ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی حکومت نے اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا ہے کہ مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو روکا جائے ۔اگرچہ اس بل کا اطلاق تمام مذاہب کی عبادت گاہوں پر ہوگا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اس قانون کی منظوری سے مقبوضہ بیت المقدس کی مساجد سے اذان سنائی نہیں دےگی۔نئے قانون کے مطابقاگر کسی مسجد سے اذان آئی تو پولیس مؤذن کو گرفتار کرنے کی مجاز ہوگی اور موذن کو اسرائیلی عدالت میں پیش کرکے جرمانہ کیا جا سکےگا۔
فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس قانون کی منظوری سے فلسطینی حلقوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے اور انہوں نے اعلان کیا ہےکہ مساجد سے اذان کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اسرائیل کی کل آبادی کا ساڑھے 17 فیصد عربوں پر مشتمل ہے جن میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں اور ان کی جانب سے یہودیوں پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کا ایک تھنک ٹینک ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ اس مجوزہ بل کے خلاف ہے۔مذکورہ تھنک ٹینک کی نسرین حداد یحییٰ کے مطابق 'بل کا اصل مقصد شور کم کرنا نہیں، بلکہ مزید شور پیدا کرنا ہے اور اس کے ذریعے یہودیوں اور عربوں کے درمیان تعلقات مزید خراب ہوں گے۔
اسرائیل کی دہشت گردی کی ہر کارروائی میں امریکہ نے ہمیشہ سے ساتھ دیا ہے۔اسرائیل کی اصطلاح قدیم زمانے سے ہی یہودیوںکے لئے مقدس اور اہم رہی ہے۔ توریت کے مطابق خدا نے یہودیوں کے تین قبائل کو اس سرزمین کا وعدہ کیا تھا۔635ء میں مقبوضہ بیت المقدس سمیت یہ سارا علاقہ عربوں نے فتح کر لیا۔
اگلے 1300 سال تک یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر انتظام رہا اورپہلے چھ سو سال تک اموی، عباسی اور صلیبی اس پر باری باری قابض ہوتے رہے۔ 1260ء میں مملوک خاندان نے اس سرزمین پر قبضہ کر لیا۔1516ء میں عثمانیوں نے یہاں قبضہ کر لیا اور یہ علاقہ پہلی جنگ عظیم تک سلطنت عثمانیہ کے زیرانتظام رہا۔
جنگ کے اختتام پر ترکی کی شکست کے ساتھ ہی یہاں برطانیہ کا قبضہ ہو گیاجس نے 1920ء میں اس علاقے کو تقسیم کر دیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کو یہودیوں سے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے جنہوں نے برطانوی راج کے خلاف شدید احتجاج کیا اور یہی وہ وقت تھا کہ جب لاکھوں یہودیوں نے یورپ میں اپنے تباہ شدہ گھروں سے دور اپنا وطن تلاش کرنا شروع کر دیا تاہم برطانوی حکومت انہیں زبردستی کیمپوں میں بھیجتی رہی۔
سن1947ء میں برطانیہ نے علاقہ خالی کرنے کا اعلان کیا اسی دوران اقوام متحدہ نے فلسطین کے لئے ایک نئی کمیٹی بنائی۔ 3 ستمبر 1947ء کو اس کمیٹی نے رپورٹ پیش کی کہ برطانوی انخلاء کے بعد اس جگہ ایک یہودی اور ایک عرب ریاست قائم کی جائے اورمقبوضہ بیت المقدس کو بین الاقوامی نگرانی میں رکھا جائے۔
29 نومبر 1947ء کو جنرل اسمبلی نے اس حوالے سے ایک قرار دار منظور کی ۔یہودیوں کی نمائندہ تنظیم جیوش ایجنسی نے اس منصوبے کو قبول کر لیا لیکن عرب لیگ اور فلسطین کی عرب ہائیر کمیٹی نے اسے مسترد کر دیا۔ اس وقت سے آج تک مسلہ حل طلب ہے لاکھوں فلسطین بےگھر اور شہید ہو چکے ہیں اور اسرائیل روئے زمین کا سب سے بڑا دہشت گرد بنا اپنی من مانیاں کر رہا ہےاور امریکہ سمیت کوئی اس کو روکنے والا نہیں۔
تاج برطانیہ کے خود غرضانہ فیصلے کشمیر اور فلسطین کے لاکھوں بے گناہ بھگت رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے اور نہ ہی کبھی ہو گا کیونکہ جن اقوام میں غیرت اور حمیت رخصت ہو جاتی وہاں یہی کچھ ہوتا ہے ۔
گستاخانہ خاکوں سے لے کر اب اذان پر پابندی کا بل ہماری سوئی ہوئی غیرت کو جنجھوڑنے کے لئے کافی ہے لیکن افسوس صد افسوس یوں لگتا ہے کہ حمیت نام ہے جس کا وہ تیمور کے گھر سے رخصت ہو گئی ہے۔
امت مسلمہ کو خواب غفلت سے کون جگائے گا اقبال اس حوالے سے کہہ گئے ہیںوضع میں تم ہو نصاریٰ، تو تمدن میں ہنودیہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔