21 نومبر ، 2016
ترکی کا اہم تجارتی ، سیاحتی اور ثقافتی مرکز صدیوں پرمحیط انمول تاریخی ورثے سے مالامال ہے ۔ سمندر کے ساتھ ساتھ حسین پہاڑوں پر بنے خوبصورت مکانات ، بحیرہ مرمرہ اور بحیرہ اسود کے سنگم پر واقع آبنائے باسفورس سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں ۔ قدیم فن تعمیرات سے مزین خوبصورت ، حسین اور شاہکار عمارتیں تحقیق کے دلدہ افراد کی نگاہوں کا مرکز ہیں ۔
اس عظیم تاریخی شہر کو یونانی، رومی اور مسلمان سلطنتوں کے ادوار میں دارالخلافہ ہونے کے باعث ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ۔ زمانہ قدیم میں استنبول کو قسطنطنیہ کہا جاتا تھا۔ یہ بازنطینی سلطنت سے بھی مشہور ہوا ۔ شہر میں جگہ جگہ سلطنت روم ، سلطنت عثمانیہ سمیت مختلف ادوار کی نشانیاں نظر آتی ہیں تاہم تاریخی قلعہ کی دیواریں اب شہر کے درمیان آچکی ہیں۔ استنبول براعظم ایشیا اور براعظم یورپ کے سنگم پر واقع ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے مقامی افراد کے طرز زندگی پر یورپ کی چھاپ نظر آتی ہے۔
میں نے ایک حسین ، خوبصورت اور آرام دہ کشتی میں آبنائے باسفورس کا سفر شروع کیا تو خوبصورت سرسبز پہاڑوں اور جدید اور قدیم تعمیرات کے حسین امتزاج میں گم ہو گیا۔ خوبصورت مناظر سے بھرپوراستنبول سیاح کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے ۔ آبنائے باسفورس کی خوبصورت سمندری راہداری بحیرہ مرمر اوربحیرہ اسود کوملاتی ہے۔ قدرتی حسن سے مالامال پہاڑ باسفورس کے کنارے بنی خوبصورت عمارتیں نہایت دلفریب منظر پیش کررہی تھیں ۔
استنبول کا قدیم علاقہ سات پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ استنبول کو “سات پہاڑیوں کا شہر” بھی کہا جاتا ہے۔ ہر پہاڑی کی چوٹی پر ایک مسجد بھی بنائی گئی ہے۔ شہر کی سیر کرتے ہوئے مجھے ہر طرف اسلامی تاریخ بکھری نظر آئی ۔
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے مزار پر حاضری دی تو روحانی تسکین محسوس ہوئی۔ دل نے بےساختہ کہا اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہزاروں لاکھوں سلام، مزار کے خوبصورت نقش و نگار نے جیسے اپنے سحر میں جکڑ لیا ۔
فاتحہ پڑھ کے مزار سے باہر آیا تو لوگ زائرین میں استنبول کی روائتی مٹھائی تقسیم کر رہے تھے۔ ہلکی بھوک میں لذیز مٹھائی نے خوب مزا دیا۔ ساتھ ہی مسجد تھی جس میں نماز جمعہ ادا کی ۔
باہر نکلا توموسم اپنے جوبن پر تھا، ہلکی خنکی مسحور کر رہی تھی ۔ میں نے ٹیکسی میں سوار ہو کرتوپ کاپی پیلس کا رخ کیا۔ راستہ بھی نہایت خوب صورت تھا۔ دلکش قدیم عمارتیں، صاف ستھری سڑکیں، پارک اور ہرے بھرے درخت آنکھیں جھپکنے نہیں دے رہے تھے۔ گزرتے بازاروں پر نظر پڑی توسیاحوں سے بھرا پایا ۔ حسین رنگوں میں مقامی اور منفرد دستکاریوں سے سجی دکانیں، بیش قیمت تاریخی نوادرات، روایتی تحائف اورملبوسات خریداروں کی توجہ کا مرکزتھے ۔
اسلامی تاریخ کے سب سے قیمتی اور اہم ترین اثاثے کے حوالے سے استنبول کا توپ کاپی پیلس دنیا کا منفرد میوزیم ہے جہاں یہ انمول اثاثہ محفوظ ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہرنبوت سمیت مقدس اشیاء ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی حضر ت فاطمہ زہرہ رضی اللہ تعالی عنہا اور نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کےلباس نہایت سلیقے سے رکھے ہوئے ہیں۔ ان قیمتی نوادرات کی زیارت کر کے اپنے نصیب پر فخر محسوس ہوا۔
وہاں رکھی صحابہ کرام کی تلواروں نے اسلامی تاریخ کے اس دور کی یاد تازہ کر دی جب مسلمان حکمراں دنیا بھر میں فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہے تھے۔ اسلامی نوادرات کا یہ سیکشن میوزیم کا سب سے اہم اورقیمتی حصہ ہے ۔ میں اگرتوپ کاپی پیلس کے بارے میں لکھنا شروع کروں تو اسلامی تاریخ کے واقعات لکھنے کے لیے صفحے کم پڑ جائیں گے اور ان کی اہمیت اور خصوصیات کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا ۔
باہر آ کر اندازہ ہوا کہ خنکی بڑھ گئی تھی اور درجہ حرارت 14 ڈگری سے نیچے چلا گیا تھا۔ میں نے جیکٹ پہنی اور سڑک پر چہل قدمی کرنے لگا۔ ذہن اب بھی اپنی تاریخ میں الجھا ہوا تھا میں سوچ رہا تھا کہ کاش مسلمان تحقیق اور علوم کے شعبوں سےوابستہ رہتے تو آج دنیا کی عظیم ترین اورناقابل تسخیر قوم ہوتے کاش اے کاش ۔۔
تھکن کے باعث میں نے مزید سیر کا پروگرام کل تک کے لیے ملتوی کر دیا اور ہوٹل کی جانب روانہ ہو گیا۔ دن بھر کچھ خاص کھانا نہیں کھایا تھا تو بھوک بھی خوب چمک رہی تھی۔
ہوٹل میں داخل ہوتے ہی میں نے ریسٹورنٹ کا رخ کیا۔ ترکی کے روایتی کھانوں کی بہت تعریف سنی تھی ۔میز پر رکھے مینو کارڈ پر نظر ڈالنے کے بعد میں نے ویٹر کو اشارہ کیا۔
ترکی آنے کے بعد ولائتی ، کانٹیننٹل یا دیگر کھانے منگوانا بے وقوفی ہوتا میں نے خالص ٹرکش کھانے منتخب کیے اور اسٹارٹر کے لیے میں نے ڈولما اور میز کا انتخاب کیا جبکہ مین کورس میں میں نے اسکندر کباب اور سیخ کباب کے ساتھ ٹرکش کوفتوں اور پلاو کا آرڈر کیا۔
کھانا واقعی بہت مزے کا تھا، ویٹر نے میٹھے میں پوچھا تو بکلاوے اور بوریک کی مختلف اقسام نے سلیکشن مشکل کر دی۔ بہرحال میں نے پستہ اور بادام فلیور آرڈر کر دئیے۔ کھانے کے بعد گرم گرم ٹرکش کافی نے مزہ دوبالا کر دیا۔
رات زیادہ ہو گئی تھی تو میں وہاں بیٹھے سیاحوں کو خوش گپیوں میں مشغول چھوڑ کر اپنےکمرے میں چلا گیا ۔ تھکن کے باعث کب میں نیند کی آغوش میں گیا کچھ معلوم نہیں۔
صبح اٹھانے کے بعد باہر کے نظارے نے طبیعت شاد کر دی۔ بادل چھائے ہوئے تھے اور درخت دھیمے دھیمے جھوم رہے تھے۔ میں نے کپڑے تبدیل کیے اور ناشتہ کیا ۔ناشتے میں، میں نے مینیمن یعنی ترکی کا مخصوص آملیٹ اور کازو ٹینڈر کا انتخاب کیا جس سے لطف اندوزہو کر میں سیر کرنے نکل کھڑا ہوا۔
میں نے چھتری ساتھ رکھ لی تھی کیونکہ آج دوپہر بارش کا امکان تھا۔باہر آیا تو پھوار کے ساتھ ہوا میں پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے ٹیکسی کی اورنیلی مسجد کی جانب روانہ ہو گیا۔ سلطان احمد کے نام سے منسوب اس مسجد کے گنبد اور ستون انفرادیت کی وجہ سے فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہیں۔ اس کے علاوہ آبنائے بازفورس کے کنارے پہاڑ پر بنی ایک خوبصورت شاہکار سلیمان مسجد بھی سیاحوں کی توجہ کامرکز ہے۔ یہاں آنے والے مسلمانوں کی فن تعمیر کے جوہر دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔سلطان سلیمان عالیشان کے نام سےمنسوب اس مسجد کے ساتھ ہی سلطان سلیمان اور دیگرحکمرانوں کے مقبرے بھی ہیں۔
نیلی مسجد کے قریب تاریخی گرینڈ بازار ہے ۔گرینڈ بازار استنبول میں شاپنگ کا ایک بڑا مرکز ہے۔ بازار سیاحوںسے بھرا ہو تھا جنہیں خریداری کرتے دیکھا تو دل چاہا کہ لگے ہاتھوں ایک چکر لگا کر "ونڈو شاپنگ" بھی کر لی جائے،سو میں دکانوں میں سجی اشیاء کی قیمتیں اور معیار کا جائزہ لینے لگا ۔
ونڈو شاپنگ تو آپ سمجھتے ہی ہوں گے یعنی ایسی شاپنگ جو صرف دیکھنے کی حد تک کی جاتی ہے جیب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، قیمتیں مناسب ہی تھیں۔ سوغات کے طور پر میں نے بھی ایک شرٹ خرید لی گو کہ یہ وہاں کا ایک مقبول بازار تھا لیکن اس بازار کی دکانیں بھی دیگر کی طرح شام 7 بجے بند ہو جاتی ہیں ۔
کل کے تجربے کے بعد اندازہ ہو گیا تھا کہ بھوکے پیٹ سیرو تفریح کا مزہ غارت ہو جاتا ہے سو میں نزدیک ہی واقع ایک کیفے میں داخل ہو گیا۔ چائے کے ساتھ میں نے کچھ کھانے کا آرڈر کرنے کے لیے مینو کارڈ اٹھایا تو جوائس کرنا ایک بار پھر مشکل ہو گیا۔ ڈورم ۔۔جس میں ہلکی آنچ پر بنی لذیز چکن یا مٹن کو روٹی میں لپٹ کر پیش کیا جاتا ہے ، ٹرکش فش سینڈوچ ،، پائڈ )ٹرکش پیزا(، سو بوریگی )لزانییا اور پیسٹری کا نمکین اور میٹھے کا مزیدار امتزاج( موزائیک پاستا )چاکلیٹ پیسٹری وغیرہ وغیرہ ۔ میں نے ڈورم کے ساتھ مورائیک پاسٹا آرڈر کیا اور ندیدے بچے کی طرح انتظار کرنے لگا۔ دونوں چیزیں نہایت لذیز تھیں اور پھر ترکی کی مخصوص مزیدار چائے ، کچھ نا پوچھئے کتنا مزہ آیا۔
کھانے پینے کے بعد تازہ دم ہو کر استنبول کے مشہور ٹیکسم یا تقسیم اسکوائر کا رخ کیا ۔ ٹیکسم اسکوائر ترکی کا اہم سیاحتی مقام ہے جسے دیکھنے روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں اور جو نایاب ٹرام کی سواری بھی کرتے ہیں۔ یہ پرہجوم اور پرکشش علاقہ سیاحوں کی خریداری کا مرکز بھی ہے۔
یہاں ہوٹل، مٹھائی کی دکانیں اور کےثقافتی مراکز سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ ساتھ ہی استنبول شہر کو پانی کی تقسیم کا مرکزی نظام بھی یہاں واقع ہے اوراسی لئے اسے تقسیم اسکوائر کہا جاتا ہے۔ تقسیم اسکوائر پر میری ملاقات کچھ ایسے سیاحوں اور مقامی افراد سے بھی ہوئی جو نہ صرف پاکستان کے بارےمیں جانتے تھے بلکہ اس کی جغرافیائی اور ایٹمی قوت سے متعلق اہمیت سے بھی آگاہ تھے۔
استنبول آنے کے بعد اندازہ ہوا کہ چونکہ یہ ایک منفرد اور خوبصورت ترین شہر ہے، اسلامی تاریخ کے نادراورانمول تاریخی ورثے کے ساتھ یہاں کی خوبصورت پہاڑیاں ، فن تعمیر کے قدیم اور جدید شاہکار، آبنائے باسفورس اور اس پر بنے تین پل ، زیرآب ٹنل، فاتحین کے قلعے ، مساجد اور مقبرے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ تاریخ اور خصوصاً اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے تو یہاں آئے بغیر مکمل معلومات ممکن ہی نہیں اور پھر استنبول کے خوبصورت اور دلفریب موسم نے جو خوشی اور تسکین دی اس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔