01 دسمبر ، 2016
سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہنا ہے کہ جمہوری نظام کا دارو مدار مردم شماری پر ہے، حکومت نے سات دسمبر تک مردم شماری کی حتمی تاریخ نہ دی تو وزیراعظم کو طلب کریں گے۔
مردم شماری از خود نوٹس کیس میں چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ حکومت کی نیت ہی ٹھیک نہیں، آج کہہ رہی ہے فوج کے بغیر مردم شماری نہیں ہوسکتی کل کہا جائے گا فوج کے بغیر الیکشن نہیں ہوسکتے، سپریم کورٹ نے ملک میں مردم شماری دو ماہ میں مکمل کرانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کی مردم شماری میں تاخیر سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دئیے کہ مردم شماری میں تاخیر اور تاریخ نا دینے کے بعد ہمارے پاس وزیراعظم کو طلب کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ، جمہوری نظام کا دارو مدار مردم شماری پر ہے، بتائیں وزیراعظم کب پیش ہوسکتے ہیں؟
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ مردم شماری میں تاخیر سے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی،
حکومت مارچ 2016 میں مردم شماری کرانے کیلئے تیار تھی، اس وقت صوبوں نے مشترکہ مفادات کونسل میں کہا کہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں کرائی جائے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ صرف حکومت کا معاملہ نہیں مشترکہ مفادات کونسل میں صوبے بھی شامل ہیں۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف سے کہا کہ حکومت نے 7 دسمبر تک مردم شماری کرانے کی حتمی تاریخ نا دی تو وزیراعظم وضاحت کے لیے خود سپریم کورٹ آئیں، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مردم شماری نہ کرواکر پورے ملک سے مذاق کیا جا رہا ہے، حکومت کی نیت ہی ٹھیک نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو یہی اسٹیٹس کو سوٹ کرتا ہے، مردم شماری ہوگی تو نئی حلقہ بندیاں ہوں گی، آج حکومت کہہ رہی ہے فوج کے بغیر مردم شماری نہیں ہو سکتی، کل الیکشن کمیشن بھی کہے گا کہ فوج کےبغیر الیکشن نہیں ہو سکتے، لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں ہو رہی ہیں اس طرح تو اپریل میں بھی مردم شماری شروع نہیں ہو سکے گی۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ فوج کے بغیر مردم شماری نہیں ہوسکتی تو آئین تبدیل کر دیں، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ وزیراعظم آ کر کہہ دیں کہ تاخیر کے ذمہ دار صوبے ہیں، سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ 7 دسمبر کو حکومت وزیراعظم کے دستخطوں سے مردم شماری کرانے کی حتمی تاریخ دے اور مردم شماری کے عمل کو دو ماہ میں مکمل کرے۔