05 دسمبر ، 2016
دنیا بھر میں خواتین کو جن مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے حقوق کی جس انداز میں خلاف ورزی ہو رہی ہے اس سے انکار ممکن نہیں،اقوام متحدہ کی مختلف عالمی کانفرنسوں میں خواتین کے مسائل کے حل، ترقی کی دوڑ میں ان کیلئے مواقع پیدا کرنے اور خاص طور پر تشدد کے بڑھتے ہوئے جس رجحان کا انہیں سامنا ہے اس پر بہت مرتبہ سوالات اٹھائے گئے ہیں اور اس سے اتفاق کرتے ہوئے ان کے حل کی سفارشات کی بھی کی گئی ہیں۔
عورت کی ترقی کے بغیر دنیا کی ترقی کا تصور ہی ناممکن ہے اور دنیا کو معاشی مسائل سے نکالنے کیلئے دنیا کی آدھی آبادی کے کردار کو کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟جنسی تشدد کے خلاف سخت قوانین کا نفاذ بھی ضراوری ہے، امریکا میں بھی خواتین کے حقوق کیلئے بات کرنے والوں کو بعض حلقوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خاص طور پر خواتین کے خلاف بعض امتیازی قوانین ختم کرنے کی بات ہوتی ہے تو کئی سینیٹرز ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں، حالیہ امریکی انتخابات میں ہیلری کی شکست میں ایک وجہ ان کا خاتون ہونا بھی قرار دیا جا رہا ہے، امریکی 2016ء میں ایک عورت کا صدر بننا برداشت نہیں کر سکے لیکن ہم نے 1988ء میں محترمہ بینظیرکو عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنا دیا پھر بھی ہم پر صنفی امتیاز برتنے کا الزام ہے۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
انہی ہیلری کلنٹن نے یو این او کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خواتین کے حقوق پر تقریر کرتے ہوئے موجودہ صورتحال کو ماضی کے مقابلہ میں بہت تیز قرار دیا، انہوں نے کہا کہ میں نے 1995ء میں بیجنگ میں خواتین کی چوتھی عالمی کانفرنس میں بھی شرکت کی تھی، اس کے بعد سے خواتین کے بارے میں حالات بہت بہتر ہو چکے ہیں۔
مختلف ممالک میں لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر میں اضافہ کر دیا گیا ہے، بعض ممالک میں خواتین پر تشدد کو جرم قرار دے دیا گیا ہے اور خواتین کے نازک حصوں کی غیر قانونی سرجری پر پابندی لگا دی گئی ہے، اب بین الاقوامی جنگی عدالتوں نے بھی خواتین کی بے حرمتی کو جرم قرار دے دیا ہے،خواتین کو بینک قرضے اور کارڈ دینے لگے ہیں، وہ اپنی جائیداد بنا رہی ہیں، مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
اب بھی دنیا بھر میں لاکھوں لڑکیوں کو اسکول جانے کا موقع نہیں ملتا، بہت سے مقامات پر اب بھی خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں، کارکن خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اُجرت دی جاتی ہے اور اب بھی بے شمار خواتین زچگی کے دوران مر جاتی ہیں،اب نئی صدی آئی ہے تو اس میں تو خواتین کو مساوی حقوق اور زندگی کی سہولتیں ملنی چاہئیں۔
یہ بات اہم ہے کہ خواتین کے لیے وہ تشدد زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے جو ان کے محبوب ان پر کرتے ہیں، دنیا بھر میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کے حالات زیادہ کٹھن ہیں، یتیم اور بیوہ خواتین کیلئے زندگی عذاب بن جاتی ہے، امریکا میں بھی خواتین مساوی اُجرتوں اور حقوق کے علاوہ اپنے اور اپنے بچوں کے تحفظ کیلئے مظاہرے کر رہی ہیں۔
اب بھی دنیا بھر میں لڑکی کی پیدائش کو منحوس سمجھا جاتا ہے، جہیز نہ لانے پر لڑکی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، کمسن بچیوں کو کم غذا دی جاتی ہے، بعض اوقات ہلاک کر دیا جاتا ہے، لڑکیوں کو اغواء کیا جاتا ہے، انہیں جنسی غلامی پر مجبور کیا جاتا ہے۔
بھارت میں صورتحال بہت ابتر ہے، دہلی شہر میں دن دہاڑے بسوں میں پارکوں میں خوتین کے ساتھ گینگ ریپ کے واقعات عام ہیں، دیہاتوں کی بات کیا کرنی ہے جہاں لاکھوں بچیوں کو پیدائش سے پہلے ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔
ایک اور بڑا مسئلہ خواتین میں ایڈز کی بیماری کا ہے، یہ بیماری اس وقت تھائی لینڈ، یوگنڈا اور سینی گال کی خواتین میں زیادہ ہے، مگر اس کے انسداد کیلئے حقیقی کوششیں نہیں کی جا رہیں، اس وقت دنیا بھر میں ہر سال بیس لاکھ خواتین کو زبردستی جسم فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے، ان کی حالت پنجروں میں قید پرندوں جیسی ہے جنہیں رہا کرنے کی ضرورت ہے۔