13 دسمبر ، 2016
گزشتہ چند ماہ کا جائزہ لیں تو سندھ کے سیاسی منظرنامے میں حیرت انگیز تبدیلیاں نظرآتی ہیں، پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سیاست میں فعال کردار ادا کرنا شروع کردیا۔
پارٹی کے اہم فیصلے بلاول بھٹو زرداری خودکرنے لگے ہیں، دبئی میں مقیم قیادت سےمشاورت بھی واضح طور پر نظر آرہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے سیاسی پلیٹ فارم پر بلاول بھٹو کو طبع آزمائی کابھرپورموقع فراہم کیا جارہا ہے۔
سندھ میں چیف ایگزیکٹو کی تبدیلی کے بعد کوئیک رسپانس وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ متعارف کرائے گئے، پیپلز پارٹی کی تنظیم نو کردی گئی،نثار کھوڑو پیپلزپارٹی سندھ کے صدر منتخب ہوگئے، صوبے کے وزیراعلیٰ کے احکامات میں تیزی ہے اور خود بھی اپنی مانیٹرنگ اور عمل درآمد کو تیز کرنے میں مصروف ہیں لیکن اداروں کے عمل میں سست روی بیوروکریسی کا سرخ فیتہ اورروایتی رویہ برقرار ہے۔
چیف سیکریٹری سندھ تبدیل ہوچکے، چند ماہ قبل تبدیل کئے گئے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا سروس کیرئیر بے داغ ہے لیکن سیاسی مداخلت کاسامنا نظر آتا ہے،سندھ میں بہرحال ترقی کی راہ میں کرپشن کا مسئلہ سنگین ہے جسے ختم کرنا سیاسی قیادت کیلئے بڑا چیلنج ہے، افسوسناک بات یہ ہے کہ بیوروکریسی اور ٹیکنو کریٹس بھی اس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔
صوبے میں ایک اور اہم پیش رفت گورنر سندھ کی تبدیلی ہے، چودہ سال کے طویل عرصے تک کامیابی سے آئینی عہدے پر براجمان ڈاکٹر عشرت العباد کو سبکدوش کردیا گیا، کرشمہ ساز گورنر کو بہترین مذاکرات کار، سیاسی بصیرت رکھنے اور معاملات کا حل نکالنے کا ماہر سمجھا جاتا رہا ہے، سرگوشیاں جاری ہیں کہ شاید گورنر سندھ کے لندن رابطے سبکدوشی کی وجہ بنے لیکن مضبوط قیاس یہ ہے کہ انہیں پرویزمشرف سے رابطوں پر ہٹایا گیا ہے، نئے گورنر جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی ہیں جو اب تک خرابی صحت کے باعث ذمہ داریاں مکمل طور پر سنبھال نہیں سکے ہیں۔
صوبے کی دوسری بڑی سیاسی قوت ایم کیوایم بظاہر تقسیم نظر آتی ہے،پاک سرزمین پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، حقیقی اور ایم کیوایم اپنی اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کررہی ہیں،سیاسی اور تجزیاتی حلقوں سے تقسیم شدہ تنظیم کو یکجا کرنے کی کوششوں کا ذکر کیا جارہاہے،یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان بیرون ملک سے اس معاملے میں اہم کردار ادا کریں گے، دوسری جانب ایم کیوایم کے منتخب میئرکراچی وسیم اختر بھی ضمانت پر رہائی حاصل کرچکے ہیںاور کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے آغاز اور تکمیل کیلئے سرگرم نظر آتے ہیں اور وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔
مجموعی صورت حال کا جائزہ لیں تو یوں لگتا ہے کہ جلسے جلوس ریلیاں کسی انتخابی تیاری کے مراحل ہیں،کیونکہ صوبے کی دونوں بڑی سیاسی قوتیں اپنی تنظیم نو، رابطہ مہم اور کارکنوں کو فعال رکھنے میں مصروف ہیں جبکہ دونوں سیاسی جماعتیں ماضی اور حال میں لگنے والے سنگین الزامات کو دھونے اور عدالت سے بھی قانونی طور پر اپنے الزامات کو کلیئرکرانے میں مصروف ہیں۔