بلاگ
19 دسمبر ، 2016

اے ڈی خواجہ سیاسی مداخلت کو قابو نہ کرسکے

اے ڈی خواجہ سیاسی مداخلت کو قابو نہ کرسکے

سندھ پولیس میں سیاسی مداخلت، جرائم پیشہ اہلکاروں کی چھان بین اور غیرقانونی بھرتیاں ختم کرکے شفاف بھرتیاں کرنا، کرپشن کے خاتمے کے اقدامات، یہ وہ اہم ترین ٹاسک تھے جو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پولیس اصلاحات کے ذریعے متعین کئے تھے۔

آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نو ماہ کے مختصر عرصے میں کچھ نہ کچھ اصلاحات تو لے آئے لیکن پولیس میں سیاسی مداخلت کو کنٹرول کرنا خواب ہی رہا، سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ پولیس میں کرپشن، غیرقانونی اور غیرشفاف بھرتیوں، تحقیقاتی فنڈز میں خوردبرد، بکتر بند گاڑیوں کی خریداری میں کرپشن، غیرقانونی اور خلاف ضابطہ ترقی اور تقرریوں کے خلاف کئی اہم فیصلے صادر کئے۔

سابق آئی جی سندھ واجد علی درانی کے بیان کو عدالت نے ریکارڈ پر رکھ کر فیصلے دئیے،جن میں کہا گیا کہ پولیس میں سیاسی مداخلت موجود ہے، جس کی وجہ سے اپنے فرائض انجام نہیں دے پاتی۔

سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کو عدالتی حکم پر عہدے سے ہٹادیا گیا تھا،پولیس کے تحقیقاتی فنڈز، بکتر بند گاڑیوں کی خریداری، ویلفیئر فنڈز اور غیرشفاف بھرتیوں کے ذریعے اربوں روپے کی کرپشن کے الزام میں غلام حیدر جمالی، غلام قادر تھیبو، خادم حسین بھٹی، فداحسین شاہ، تنویرطاہرسمیت کئی افسران پر الزامات عائد ہوئے اور عدالتی کارروائی کا حصہ بنے۔

آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے سپریم کورٹ کے احکامات پر شفاف بھرتیوں، فنڈز میں کرپشن، پولیس میں ترقیوں سے متعلق مسائل، ٹریفک پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوسکے۔

اے ڈی خواجہ محکمہ پولیس میں اصلاحات کیلئے دیرپا پالیسی پر عمل درآمد کو یقینی بنارہے تھے، انہوں نے بڑی حد تک شفاف بھرتیوں کو یقینی بنایا، پولیس ویلفیئر فنڈز کو شفاف کرنے اور شہداء کے خاندانوں کی ہرممکن معاونت کے لیے اقدامات کئے۔

پولیس میں نچلی سطح پر ترقی کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور سپاہیوں کو معیار اور میرٹ کے مطابق ترقیاں دیں۔

پولیس ملازمین کا سروس ریکارڈ اور پیٹی ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے کے اقدامات کئے جبکہ تحقیقاتی فنڈز بڑھایا اور تمام اضلاع کیلئے جاری کرایا، انہوں نے فنڈز میں کرپشن کی روک تھام کی، ٹریفک کے مسائل کے حل کی کوششیں کیں،لیکن پولیس میں سیاسی مداخلت کے معاملات انہیں دو ر نہ کرنے دئیے گئے۔

پولیس کے آزدانہ اور شفاف کردار کے حامی پولیس آفیسر اے ڈی خواجہ کو اپنی ٹیم مکمل کرنے دی گئی نہ ہی مکمل اختیار دیا گیا، سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کی جانب سے بھی یہ کوشش سامنے آئی کہ آئی جی سندھ کو بااختیار بنایا جائے اور مداخلت کو کم سے کم کیا جائے لیکن سیاسی قوتیں اس عمل میں رکاوٹ رہیں اور یہی اے ڈی خواجہ کو عہدے سے ہٹانے کیبڑی وجہ بنی ۔

ایک بااثر شخصیت کے فرنٹ مین اور قریبی رشتے دار جو خود سیاسی شخصیت ہیں وہ کاروبار میں پولیس کو استعمال کرنے اور سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں نہ کرنے پر شدید ناراض نظر آئے اور آخر کار سندھ میں کرپٹ پریکٹس، سیاسی مداخلت، انفرادی فائدے جیسی گورننس کی ایک مرتبہ پھر جیت نظر آتی ہے۔