27 دسمبر ، 2016
بعض سانحات ایسے ہوتے ہیں جن پر صدیاں بھی ماتم کناں اور شرمندہ رہتی ہیں، غیور اقوام اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھول پاتیں، ان کا غم اپنے فراخ سینوں میں چھپائے تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں اور اپنے محسنوں کے ادھورے کام پورے کرتی ہیں۔ وہ سہ پہر آج بھی میری نظروں کے سامنے ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن محترمہ بےنظیر کا لیاقت باغ راولپنڈی میں آخری جلسہ تھا، میں روزنامہ جنگ لاہور کے نیوز روم سے ملحقہ ایک کمرے میں بیٹھا ان کی پرجوش تقریر سن رہا تھا اور ساتھ ساتھ نوٹس بھی لے رہا تھا۔
آج وہ معمول سے بہت زیادہ پرجوش تھیں اور بہت ہی باوقار لگ رہی تھیں اور لگتی بھی کیوں نہ آخر وہ ایک پروقار اور شاندار شخصیت کے حامل ذوالفقار علی بھٹو کی لاڈلی صاحبزادی تھیں، ان کے جلال اور جمال دونوں کی جھلک بےنظیر میں دکھتی تھی، میں نے ابتدائی خبر نیوز روم بجھوا دی۔ اچانک جیو نے ٹکر چلایا کہ جلسہ گاہ میں دھماکے کی آواز سنی گئی ہے، میرا دل دھک سے رہ گیا، اس کے ساتھ ہی متضاد اور غیر یقینی سی خبریں آنے لگیں، جب یہ خبر آئی کہ محترمہ محفوظ ہیں اور ڈرائیور گاڑی کو دھماکے کی جگہ سے نکال کر لے گیا ہے تو جان میں جان آئی، ان چند منٹوں میں روزنامہ جنگ کے نیوز روم میں معمول کا سارا کام رک چکا تھا۔
ان کے بد ترین مخالفین بھی بوکھلائے ہوئے تھے، بعض ہاتھ اٹھائے دعا کر رہے تھے اور بعض اپنے آنسوؤں کو ضبط کرنے کی کوششوں میں تھے، میں نے اسی وقت اپنے انکل باسط جہانگیر شیخ مرحوم کو فون کیا جو پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک تھے اور بینظیر کے بہت قریبی تھے، انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا زابر بیٹا! سب ختم ہو گیااور مجھے یوں لگا جیسا دل کی دھڑکن رک سی گئی، ایک مختصر سکوت کے بعد میرے منہ سے نکلا بی بی صاحبہ بھی؟ تو انہوں نے کہا ایسا ہی لگ رہا ہے، اسی لمحہ میں نے سامنے دیکھنا چاہا تو مجھے احساس ہوا کہ میری آنکھیں بھیگی ہوئی ہیں۔
جیو پر ٹکر چل رہا تھا محترمہ بینظیر بم دھماکے میں جاں بحق، گویا تصدیق ہو گئی تھی، جنگ کے نیوز روم میں اس وقت کامن پن بھی گر جاتی تو اس کی آواز سنائی دیتی، ایک خوفناک خاموشی تھی، اچانک سسکیوں کی آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور سب گویا ہوش میں آگئے، میں آپ کو بتاتا چلوں مجھ سمیت نیوز روم میں کوئی بھی پیپلز پارٹی کا ووٹر نہ تھا ماسوائے حاجی ابراہیم صاحب کےلیکن وہ چند لمحے 27 دسمبر 2007 کی وہ خون آلود سہ پہر کبھی بھلائی نہیں جا سکتی۔
یہ وہ لمحات تھے جس پر آنے والی کئی صدیاں آنسو بہا تی رہیں گی، وہ رات جب میں گھر جا رہا تھا لگتا تھا درخت رو رہے ہیں، سڑکیں سسکیاں لے رہی ہیں، خاموشی بین کر رہی ہے، ایک سناٹا تھا اس لاہور میں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ شہر ہے جو کبھی نہیں سوتا، جس دن بھٹو صاحب کا عدالتی مرڈر ہوا تھا مجھےلاہور کی وہ شام بھی یاد ہے، بازار کھلے تھے روشنیاں بھی تھیں گو کہ لوگ افسردہ اور دکھی تھے لیکن 27 دسمبر کا دکھ لاہور کو ماتم کدہ بنا گیا، بس اندھیرا، خوفناک سکوت، سنسان سڑکیں اور بازار۔
اس رات لاہور میرے لئے اجنبی ہو گیا تھا، اس لاہور کو میں نہیں جانتا تھا، لاہور جو سر شاہ نواز کے بیٹے زلفی کی درد ناک موت کا دکھ سہہ گیا لیکن مظلوم دختر مشرق کا دکھ نہیں سہہ پایا، اس رات لاہور کو میں نے بین کرتے سنا، آہ دختر مشرق جو چاروں صوبوں کی زنجیر تھی، وقت کے سب سے بڑے آمر سے اکیلی جا ٹکرائی، اس کو سیکورٹی رسک کہا گیا۔
جب میں نے مرحوم جنرل حمید گل کا انٹرویو سنا کہ وہ کہہ رہے تھے بینظیر بھٹو محب وطن پاکستانی تھیں، ہم غلط تھے ہائے اس زود پشیمان کا پشیماں ہونا۔ وقت گزر گیا ہے، وقت گزر ہی جاتا ہے، یادیں ہی رہ جاتی ہیں، یہ شہیدوں کا خاندان ہے، پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں شہدا کا خون ہے، آپ لاکھ اختلاف کریں ایٹمی پاکستان کا خواب دیکھنے والا کس بے بسی اور بےکسی سے مار دیا گیا اور ہنری کیسنجر کی دھمکی کو عملی جامہ پہنا دیا گیا۔
اس کا حالیہ بیان سامنے آچکا ہے کہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے اس وقت کے پاکستانی صدر سے معاملات طے پا گئے تھے، ظاہر ہے بھٹو صاحب 1969 میں پاکستان کے صدر نہ تھے، ان کی بیٹی کو سیکورٹی رسک کہا گیا لیکن آج سے ٹھیک 9 سال پہلے کا عوامی پاکستان کچھ اور رد عمل دے رہا تھا اور حکومت پاکستان راولپنڈی کے خون آلود سڑک کو بڑی عجلت میں دھونے میں مصروف تھی۔ سچ ہے نام تو صرف اللہ کا رہ جانا ہے، وقت کے وہ سارے فرعون جو دختر مشرق کے خون ناحق کے دھبے مٹانے میں لگے تھے وہ بھی آخر اسی رب کے حضور پیش ہونے والے ہیں جہاں کسی کی سفارش نہیں چلتی اور دختر مشرق کو انصاف ملے گا اس ذات بے ہمتا سے جو سب سے اچھا انصاف کرنے والا ہے۔