بلاگ
28 دسمبر ، 2016

شاہان مغلیہ اور لاہور

شاہان مغلیہ اور لاہور

دودمان مغلیہ نے اپنی سلطنت ہندوستان میں کیا قائم کی دہلی اور آگرہ کے ساتھ لاہور کا ستارہ اقبال بھی چمک اٹھا۔ شہنشاہ بابر کے زمانہ میں لاہور کی آبادی نو سے بارہ میل کے اندر تھی۔

بابر کے بیٹے کامران نے سب سے پہلے لاہور میں ایک شاندار بارہ دری تعمیر کروا کر دلکش اور خوبصورت عمارات کی طرح ڈالی۔شاہان مغلیہ کو لاہور سے عشق تھا اسی لئے شیر شاہ سوری کو لاہور سے عداوت تھی۔ اس نے لاہور کی بجائے سیالکوٹ کو پنجاب کا دارالحکومت بنانا چاہا مگر موت نے اسے مہلت نہ دی۔

شہنشاہ اکبر کے زمانہ میں لاہور کی قسمت کا ستارہ اپنے عروج پر تھا۔اکبر 1584 تا 1598 لاہور میں مقیم رہا۔ ایک یورپی سیاح 1595 میں لاہور آیااس کے مطابق لاہور کا مقابلہ اگر کسی اور شہر سے کیا جا سکتا ہے تو وہ آگرہ ہے۔بازار اچھے بارونق اور پختہ ہیں۔یہاں کی عمارات قابل دید ہیں۔

لاہور میں اس زمانہ میں شالبافی اور پشمینہ کا کام اس کثرت سےہوتا تھا کہ لاہور کو چھوٹا کشمیر کہا جاتا تھا۔لاہور ہی سے اکبر نے کشمیر پر حملہ کر کے اسے مغل سلطنت میں شامل کیا۔لاہور ہی میں اکبر نے سکھوں کے چوتھے گرو رام داس سے ملاقات کی اور دربار صاحب امرتسر کے لئے پانچ سو بیگااراضی مرحمت فرمائی اور ایک منڈی تعمیر کروائی جسے آج بھی اکبری منڈی کہا جاتا ہے۔

شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر جو واحد مغل فرمانروا ہے ، لاہور میں دفن ہے ۔ اسے لاہور سے بہت محبت تھی۔1626 میں اس کے عہد حکومت میں دو انگریز سیاح لاہور کے بارے میں لکھتے ہیں ’لاہور ہندوستان کا چوٹی کا شہر ہے، یہاں ہر چیز بافراط مل سکتی ہے۔ آب وہوا بہترین ہے۔ تجارت کی گرم بازاری ہے۔ ہندوستان بھر کے سوداگر یہاں موجود ہیں دریا کے کنارے زبردست رونق ہوتی ہے ۔ہر سال چودہ ہزار اونٹ مال واسباب سے بھرے قندھار کے راستے ایران کو جاتے ہیں۔‘‘

جہانگیر مذہبی رواداری کا قائل تھا۔ ’مجالس چہانگیری‘ کا اگر مطالعہ کریں تو وہ ایک درویش شہنشاہ معلوم ہوتا ہے۔شہنشاہ نے گوا سے آئے پادریوں کو لاہور میں سب سے پہلا گرجا بنانے کی اجازت دی۔لاہور سےاپنی بے پناہ محبت کے اظہار کے طور پر اس نے 1622 میں لاہور کو سلطنت مغلیہ کا پایہ تخت بنا دیا اور لاہور ہی میں دفن ہونے کی وصیت کی۔

شہنشاہ شاہجہاں نے بھی لاہور میں شاندار عمارات تعمیر کروائیں ۔شالامار باغ ان میں سے ایک ہے شیش محل تو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔شہزادہ داراشکوہ کو لاہور سے محبت نہیں بلکہ عقیدت تھی ۔اس کی وجہ حضرت میاں میر تھے۔آخری بڑے مغل شہنشاہ اورنگ زیب کی یادگار لاہور کی شاہی مسجد ہے۔

عالمگیر نے 1661 میں لاہور کو دریائے راوی کی دستبرد سے بچانے کے لئے ایک بند بھی تعمیر کروایا تو لاہور کے روسا اور امرا نے شہر سے باہر شاندار محلات تعمیر کروائے ۔ اس زمانے میں دریا پر کیا خوب رونق ہوتی ہو گی آج سب خواب و خیال ہے۔ اورنگزیب کی بیٹی شہزادی زیب النسا نے خوبصورت باغ تعمیر کروایا جس کا دروازہ آج بھی موجود ہے اسے چوبرجی کہا جاتا ہے۔

شاہی عمارات کی بربادی کے ذمے دار سکھ ہیں جنھوں نے مغلوں کی عطا کردہ اراضی پر انہی کے محلات اور مزاروں سے قیمتی پتھر اتروا کر دربار صاحب امرتسر تو آباد کر لیا لیکن مغلیہ تہذیب و تمدن کی حامل شاندار عمارات کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔

بے شک اللہ کی ذات ہی سچ ہے جسےکبھی زوال نہیں، باقی سب فانی ہے۔