بلاگ
25 جنوری ، 2017

لاہور ،مہاراجہ رنجیت سنگھ اور ان کی سمادھی

لاہور ،مہاراجہ رنجیت سنگھ اور ان کی سمادھی

جس وقت شاہان مغلیہ کی شاندار سلطنت اور تہذیب وتمدن ہندوستان میں آخری سانسیں لے رہے تھے، دہلی کی مرکزی حیثیت کا خاتمہ ہو چکا تھا،ایرانی لٹیرا نادر شاہ صدیوں کی جمع کی گئی دولت کے انبار لوٹ کر چلتا بنا تھا، مغل صوبے دار آزاد اور خودمختار ہو چکے تھے،احمد شاہ ابدالی کے حملے سلطنت مغلیہ کی فوجی طاقت کا بھرم ساری دنیا کے سامنے عیاں کر چکے تھے، پنجاب پرلوٹ مار اور افراتفری کا راج تھا۔

ایسے میں ایک19سالہ نوجوان سکھ سردار نے لاہور کو فتح کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا، یہ سکھ سردار مہاراجہ رنجیت سنگھ کہلائے، انہوں نے پہلی سکھ سلطنت قائم کی اور اپنے علاقوں میں امن و امان قائم کیا۔

انہوں نے اپنی بصیرت سے سمجھ لیا کہ اب انگریزوں کو نکالنا آسان نہیں چنانچہ انہوں نے حکمت عملی سے کام لیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی سے بنا کر حکومت کی۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780 ءکو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے، ان کا دور حکومت 12 اکتوبر 1801ء سے 27 جون 1839ء ان کی وفات تک ہے۔

لاہور سے مہاراجہ کو بڑی محبت تھی، ان کی سمادھی بھی لاہور میں عظیم شاہی مسجد اور قلعے کے پاس ہے،منشی محمد دین فوق کے مطابق جس جگہ مہاراجہ کو نذر آتش کیا گیا یہاں ایک باغ تھا جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا باغ کہلاتا تھا، اسی باغ میں مہاراجہ کے جانشین کھڑک سنگھ نے سمادھی بنانے کا حکم دیا، جس کی تعمیر مہاراجہ دلیپ سنگھ نے 1848ء میں مکمل کروائی،اسی باغ میں مہاراجہ نے ایک جوگی کا امتحان بھی لیا تھا۔

سمادھی کو اکتوبر 2005ء کے زلزلے سے کافی نقصان پہنچا، مئی 2006ءمیں بھارتی وزیر ابیکا سولی نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو اس حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ بھی کیا، سابق صدر رفیق تارڑ نے بھی اپنے عہدِ صدارت میں سمادھی کی مرمت کروائی، عمارت ہندو مسلم اور سکھ فن تعمیر کا امتزاج ہے، شاہی قلعہ لاہور کا تعمیراتی پتھر وہاں سے اکھڑوا کر یہاں استعمال میں لایا گیا ہے۔

مہاراجہ کے ساتھ ساتھ ستی ہونے والی چار مہارانیوں اور سات دیگر کی باقیات بھی یہاں موجود ہیں، ہر سال سیکڑوں سکھ اور ہندو یاتری یہاں حاضری دیتے ہیں، ایک سکھ تاریخ دان کے مطابق سکندر،نپولین اور محمود غزنوی کے بعد وہ سپہ سالار جس نے کسی بھی میدان جنگ میں شکست نہ کھائی وہ رنجیت سنگھ ہیں، اگرچہ وہ یک چشم تھے۔

ان کی دوسری نیم وا آنکھ میں بینائی نہ تھی اور انہوں نے اپنی اس خامی کو بھی خوبی بناتے ہوئے اعلان کیا کہ میں اپنی تمام رعایا ہندو، سکھ اور مسلمانوں کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہوں۔

(مصنف محمد زابر سعید پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں)