01 فروری ، 2017
رپورٹ: راشدہ شعیب
پانی زندگی ہے اور کرۂ ارض پر زندہ رہنے کا اہم جزوبھی لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ جو پانی آپ اور ہم پی رہے ہیں وہ کتنا صاف ہے؟ہم میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو لیبارٹری سے پانی ٹیسٹ کرانے کے بعد استعمال کرتے ہوں تو پھر یہ کیسے پتہ چلے کہ گھروں کے نل میں آنے والا پانی، ٹیوب ویلز، فلٹریشن پلانٹس یا پھر بوتلوں کا پانی، یعنی منرل واٹر کہلانے والا پانی پینے کے قابل ہے؟
پانی میں قدرت نے کیلشیم، منرلز سمیت 100سے زائد عناصر رکھے ہیں، تاہم جراثیم، زہریلی دھاتیں، گدلا پن، نائٹریٹ، فلورائیڈ، سنکھیا اور ان گنت مضر عناصر کے شامل ہونے سے پانی زندگی نہیں موت بانٹ رہا ہے۔
پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل کے سروے کے مطابق پاکستان میں پینے کا پانی صرف 22 فیصد ہی صاف ہے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی صور ت حال تسلی بخش نہیں اور پینے کا پانی 75 فیصد آلودہ ہے۔
اس سروے کےمطابق راول پنڈی، اسلام آباد، پشاور، لاہور، کراچی، ملتان، کوئٹہ، حیدر آباد، سکھر اور گوجرانوالہ سمیت 24 شہروں کا پانی 80 فیصد آلودہ ہے، جس میں جراثیم کا تناسب 69 فیصد ہے، جنوبی پنجاب اور سندھ کے پانی میں سنکھیا کی مقدار 15 ف صد، زیر زمین حاصل پانی میں نائٹریٹ کی مقدار 93 فیصدا ور بلوچستان کے پانی میں فلورائیڈ کی مقدار 8 فیصد ہے۔
پی سی آر ڈبیلو آر پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ماتحت پانی کی مانیٹرنگ کا مجاز ادارہ ہے،جو ملک بھر سے واٹر سمپل اکھٹے کر کے پانی کے ٹیسٹ کرتا ہے اور ماہانہ اپنی رپورٹس حکومت کو پیش کرتا ہے، اس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد ا شرف کا کہنا ہے کہ واٹر فلٹریشن پلانٹس کا پانی بھی آلودگی سے پاک نہیں، وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کو اسلام آباد کے فلٹریشن پلانٹس کے پانی کی ٹیسٹ کے بعد رپورٹس بھیجی جاتی ہیں، جبکہ پارلیمنٹ لاجز کے پانی کی رپورٹ بھی باقاعدگی سے جمع کرائی جاتی ہے۔
آلودہ پانی کی ایک بڑی وجہ زیر زمین پانی کی پائپ لائنز اور سیوریج لائنزکا ایک ساتھ سفر بھی ہے جو پانی میں زہر گھولتا رہتا ہے، پتہ اس وقت چلتا ہے جب شہری آلودہ پانی کی وجہ سے اسپتالوں تک پہنچنے لگتے ہیں۔
اسلام آبا دمیں ایک طرف تو پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے لیکن دوسری جانب متعلقہ اداروں کی عدم توجہی سے پانی کے مسائل بڑھنے لگے ہیں، اسلام آباد کے گنجان آباد سیکٹر جی ٹین فور میں ٹیوب ویل نمبر 161 کی حالت زار اپنی تباہی کی داستان سناتی دیکھائی دیتی ہے، پانی کا پائپ پھٹے نہ جانے کتنا عرصہ بیت گیا، اس کے ساتھ کوڑا کرکٹ، اسی لائن سے جراثیم سمیت زہریلے مواد کے داخلے کے لیے رستے میں کوئی رکاوٹ نہیں، اسی سیکٹر میں تھوڑا آگے بڑھیں تو ایک ایسا فٹریشن پلانٹ موجود ہے جس کے نل سرے سے ہی غائب ہیں، یہ نل کس نے کب اتارے، جواب دینے والا اہل کار نیا ہے اس لیے اس کے علم میں یہ سب نہیں۔
شہری شکایت کرتے ہیں کہ یہاں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں اور نہ ہی پانی کی ٹیسٹنگ کا کوئی نظام ہے ،شہری کہتے ہیں کہ بعض فلٹریشن پلانٹس میں پانی اتنا گدلا ہوتا ہے کہ وہ نل میں آنے والے پانی پر اکتفا کرتے ہیں۔
پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل منرل واٹر کے نام پر بوتلوں میں پیک پانی کو بھی محفوظ قرار نہیں دیتا کیونکہ یہ پانی گراؤنڈ واٹر سے بھرا جاتا ہے،منرل واٹر میں مصنوعی عناصر شامل کیے جاتے ہیں، یہ عناصر مقررہ معیار سے کم یا زیادہ ہوجانے سے پانی مضر صحت بن جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق آلودہ پانی 80 فی صد بیماریوں کا باعث بنتا ہےجس میں ہیپاٹائٹس، آنتوں، معدہ و جگر، گردے کی بیماریوں سمیت کینسر جیسی جان لیوا بیماریاں بھی شامل ہیں، یہ تشویش ناک صورت حال ہنگامی اور بھرپور اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔