03 فروری ، 2017
ایک ہزار سال پیشتر دنیا دو بلاکس میں تقسیم تھی، ایک طرف مسلمانوں کی شاندار ،عظیم تہذیب اور حکومتیں دوسری طرف خونخوار اور وحشی مغل جنہوں نے خوارزم شاہی حکومت اور پھر خلافت عباسیہ کو تنکوں کی طرح بکھیر دیا اور خلیفہ بغداد کو ہاتھیوں تلے رندوا کر ان کے جسم کا قیمہ بنا دیا۔
اسی زمانے میں یورپ میں بنی امیہ کے ایک شہزادے نے شاندار تہذیب وتمدن کی بنیاد ڈالی اور اجڈ، وحشی، بدبودار یورپ کو کپڑے پہننے کے سلیقے سے آگاہ کیا، آداب معاشرت سکھلائے اور اندلس کی جامعات میں پڑھایا اور انہی لوگوں نے آکسفورڈ اور کیمرج کی طرح ڈالی، 1492 میں سلطان عبداللہ الحمرا کی چابیاں فرنگی بادشاہ اور اسکی ملکہ کے حوالے کر کے روتا ہوا رخصت ہوا اور مسلمان آٹھ سو برس حکومت کر کے بھی اجنبی ٹھہرے اور آج مسلمان وہاں کتنے ہیں سب جانتے ہیں۔
اسی صدی میں ایک نئی سپر پاور جنم لے رہی تھی، ایک ترک سردار عثمان اس کا بانی تھا، اس عظیم سپر پاور نے اگلی تین چار صدیوں تک دنیا پر حکمرانی کرنا تھی، سلطان بایزید پیرس کے دروازے پر دستک دے رہا تھا کہ امیر تیمور کے حملے نے اسے واپسی کی راہ دکھائی اور مسلمان اس کے بعد کبھی وہاں نہ پہنچ سکے وگرنہ دنیا کی تاریخ آج کچھ اور ہوتی۔
سولہویں صدی میں ایک اور سپر پاور نے جنم لیا اور ہندوستان میں شاندار مغل تہذیب کا جنم ہوا اور پھر زوال کا آ غاز ہوا، ابن خلدون بھی یہی کہتا ہے، عثمانی اور مغل سلطنت کے کھنڈروں پر گریٹ برٹش ایمپائیر نے اپنی تاریخ لکھی، شہنشاہ نپولین بھی اس کے آگے ناکام رہا اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ سویا ہوا امریکا اٹھ رہا ہے اور برطانوی غلامی کا طوق اتار پھینکتا ہے۔
ایک نئی سپر پاور کا جنم ہوا چا ہتا ہے، یورپ کا مرد بیمار ترکی اب بے بس ہو چکا ہے، نیا ورلڈ آرڈر آ چکا اور سوویت یونین بنتاہے، پہلی اور دوسری جنگ عظیم ہوتی ہے اور نتیجہ یہ کہ دنیا امریکی اور روسی دو بلاکس میں تقسیم ہو جاتی ہے، گرم پانیوں تک پہنچنے کی خواہش سوویت یونین کو افغانستان پر حملہ کرنے پر اکساتی ہے اور یہی غلطی اس کا خاتمہ کر دیتی ہے، بس اب ایک ہی سپر پاور ہے اور وہ ہے ریاست ہائے متحدہ امریکا، اپنی من مانی کرنے کے لئے آزاداور پاکستان نے جو ساتھ دیاسب کچھ بھلا دیا، کون سا ساتھ بھئی؟؟
نیا ورلڈ آرڈر آتاہے، امریکی من مانیوں کا آغاز ہوتا ہے، عراق پر حملہ، فلسطین کا مسئلہ، لیبیا، شام، مصر، افغانستان، ایران پر پابندیاں، انتہا پسند بش جاتا ہے اور اوباما آتا ہے جو ذرا دھیما چلتا ہے، دنیا کے مسائل کم نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے ہیں اور اب وائٹ ہاؤس میں خود امریکی تاریخ کا متنازع ترین صدر قدم رنجہ فرما چکا ہے، سات ممالک کے مسلمانوں پر امریکا کی سرزمین تنگ کر دی گئی ہے، البتہ ان ممالک کے یہودیوں کے لئے کھلی ہے۔
پاکستان کو وارننگ پر وارننگ دی جا رہی ہے، ہندوستان سے دوستی بڑھتی جاتی ہے، نیا ٹرمپی ورلڈ آرڈر اب دنیا کو نئی تقسیم کروا رہا ہے، عوامی جمہوریہ چین جو پاکستان کا عظیم دوست ہے سپر پاور کو للکار رہا ہے، چین ایک نئی سپر پاور بننے جا رہا ہے، پاکستان اب چین کے ساتھ ہے اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سات دہائیوں سے بھارت کی سرپرستی کرنے والا روس اب گرم پانیوں کے لئے پاکستان اور چین کے ساتھ کھڑا ہے۔
نیا بلاک جنم لے چکا ہے، فلسطین کے صدر نے پاکستان میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے، سابق سوویت یونین کے آخری صدر میخائیل گورباچوف تیسری عالمگیر جنگ کے خدشے کا اظہار کر چکے ہیں، نیٹو اور روسی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا ورلڈ آرڈر جاری کر رہے ہیں، کبھی امریکی صحافیوں کو مظاہروں کی کوریج کرنے پر رگڑا جا رہا ہے تو کبھی امریکی اٹارنی جنرل کو فارغ کیا جا رہا ہے۔
ادھر کینیڈا میں مسجد پر فائرنگ ہو رہی ہے اور چھ مسلمان شہید ہو چکے ہیں، امریکی عدالت کے حکم امتنائی کی بھی پرواہ نہیں کی جا رہی، مختلف جماعتوں پر پابندیاں لگنے کا آغاز ہو چکا ہے، ایک بڑی امریکی ٹیلی کام کمپنی اپنے ملازمین کے تحفظ کے لئے ٹرمپ کے آرڈر کے خلاف میدان میں آ چکی ہے، بھارتی وزیر اعظم ٹرمپی نشے میں چور پاکستان کا پانی بند کرنے اور سندھ طاس معاہدے کی تنسیخ کی بات کر رہے ہیں، دنیا کا ایک نیا منظر نامہ تشکیل پا رہا ہے جو جلد ایک نیا رخ لے گا۔
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر کا تعلق لاہور سے ہے، پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں)