22 فروری ، 2017
شاہان مغلیہ نے برصغیر کو جہاں ایک عظیم الشان تہذیب و تمدن سے روشناس کروایا وہیں اردو زبان کا تحفہ بھی دیا، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ شاہان مغلیہ یا شاہان چغتائیہ عظیم فاتح چنگیز خان کی نسل سے ہیں ،چنگیز خان اور اس کی اولاد کے زمانے میں بادشاہوں اور بادشاہ زادوں کی فرود گاہوں اور لشکر گاہوں کو اردو کہا جاتا تھا، یہاں تک کہ ان کا مستقر بھی اردو کہلاتا تھا اور قراقرم کا قدیم نام بھی اردو بلیغ ہے۔
بعد ازیں جب مغل شہنشاہ کسی مہم پر روانہ ہوتے تو ان کی لشکر گاہیں اردوئے معلی (Golden Hord) کہلاتی تھیں، الغرض اردو کے معنی کی جتنی متنوع صورتیں گنوائی جاتی ہیں ان سب کا بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر لشکر سے ہی تعلق بنتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ لاہور کا اردو بازار بھی کبھی مغل لشکر کی قیام گاہ ہی ہو، مغل شہنشاہیت کے پرچم تلے دنیا کے مختلف خطوں اور مغل سلطنت کی حدود میں بسنے والی متنوع نسلوں پر مشتمل اپنی اپنی زبانیں اور بولیاں بولنے والی رعایا میں جو الفاظ مقبول ہوئے اور اس دور میں جب لشکری ہونا ویسے ہی باعث افتخار تھا چنانچہ ایک مشترکہ زبان وجود میں آتی چلی گئی جس میں حیرت انگیز طور پر دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت تھی اور آج بھی ہے۔
تزکِ جہانگیری میں شہنشاہ جہانگیر اس زبان کو ہندی کا نام دیتے ہیں لیکن شاہ جہانی دور میں دہلی کو جب جب شاہ جہاں آباد کا نام ملا تو یہ زبان محض عوام کی زبان نہ رہی بلکہ اردوئے معلی قرار پائی، تو ظاہر ہے اس نے لطافت کی کئی حدود کو چھو لیا، شہزادے اور شہزادیاں اور امراء کی زبان اور تہذیب وتمدن کی لوگ نقل کرتے ہیں، آج کی اصطلاح میں Trend Setter کہا جا سکتا ہے اور بھر شاہجہاں آباد اور اردو لازم و ملزوم ہو گئے،اسی پر میر تقی میر کے فرزند میر کلو عرش کہتے ہیں کہ
ہم ہیں اردوئے معلی کے زبان دان اے عرش
مستند ہے جو کچھ ارشاد کرتے ہیں
لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ 2018ء سے سی ایس ایس کا امتحان اردو میں لیا جائے جس کے بعد ایک پرانی بحث کا نئے سوشل میڈیائی انداز میں آغاز ہو گیا ہے، میٹرک، ایف اےاور بی اے پاس دانشور تو اپنی دانش سے ہمارے اذہان کی چولیں تو ہلا ہی رہے تھے کہ اب لارڈ میکالے کی پالیسی کے نتیجے میں وجود میں آنے والے آدھے کالے یا مکمل براؤن صاحب لوگ بھی اپنی عقلی موشگافیوں سے پورا پاکستان سر پر اٹھائے گویا ماتم کر رہےہیں۔
اس حوالے سے وطن عزیز کے ممتاز محقق اور اردو زبان و ادب کی تاریخ مرتب کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر سلیم اختر جو اگلے ماہ اپنی تراسیویں سالگرہ منائیں گے ،ان کے ساتھ نشست ہوئی جس میں انہوں نے اس فیصلے کی پرزور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جو فیصلہ حکومت کو کرنا چاہیے تھا وہ عدالت نے کر دیا ہے اور یہ خوش آئند ہے، اس کو بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا،روایتی انگریزی میڈیم طبقہ اس فیصلے کی مخالفت کر رہا ہے جس کو لارڈ میکالے نے برطانوی سامراج کو مضبوط بنانے کے لیے تیار کیا تھا جس کی آزادی کے بعد کوئی ضرورت نہیں تھی۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے اس حوالے سے مثال دی کہ حیدر آباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی میں سو سال پہلے ایم بی بی ایس سمیت تمام جدید سائنسی علوم اردو میں پڑھائے جاتے تھے اور یہ تمام لوگ نامور ہوئے، اس دور میں ایک دارالترجمہ بھی قائم تھا جو اصطلاحات کا آسان اردو میں ترجمہ کرتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اردو زبان کی سب سے بڑی خوبی اس کا دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر اس طرح جذب کر لینا ہے کہ گویا یہ اسی کا حصہ ہیں، جو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں لفظ کا ترجمہ کیسے کریں، فلاں ترجمہ مشکل ہے تو ایسے احباب سے گزارش ہے کہ ان کو ویسا ہی رہنے دیں مثلاً گلاس، تھرما میٹر، کپ، پلیٹ، فریج، کار، اسکول، کالج، یونیورسٹی، فریم، پن، ہینڈل، بلڈ پریشر، شوگر وغیرہ ان کو اسی طرح ہی بولیں اور لکھیں کیونکہ اب یہ اردو کا ہی حصہ بن گئے ہیں، گو تھرمامیٹر کو حرارت پیما، بلڈ پریشر کو فشار خون یا یونیورسٹی کو جامعہ، اسکول کو مکتب یا مدرسہ بھی کہا جا سکتا ہے اور جب ہم ان الفاظ کا روزمرہ استعمال کریں گے تو رواں ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے اس حوالے سے فرمایا کہ اگر ترجمہ کئے گئے الفاظ کو ان کی اصل صورت میں بھی بولنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس حوالے سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا جانا چاہئے، مزید برآں اردو کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے قائم قومی اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اگر سو سال پہلے میڈیکل سمیت ہر سائنسی اور فنی علم کا ترجمہ ہو سکتا ہے تو آج کیونکر ممکن نہیں، بس خلوص نیت شرط ہے۔
اس حوالے سے ایک سینئر بیوروکریٹ کاشف منظور نے بتایا کہ ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو اس فیصلے کو تین مراحل میں نافذ کرے گی، آئندہ سال سے پہلے مرحلے پر عملدرآمد کیا جائے گا جس کے تحت اردو کا ایک سو یا 50نمبر کا پرچہ شامل کیا جائے گا، اس کے بعد دیگر مراحل کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔