07 مارچ ، 2017
پاک چین اقتصادی راہداری کے ثمرات گزرتے وقت کے ساتھ نمایاں ہونے لگے ہیں ۔پاکستان میں گزشتہ ماہ ہونےوالی خطے میں اہم بڑی بحری مشق امن 2017 میں 36 ممالک کی شرکت اور جاری اقتصادی تعاون کی علاقائی تنظیم ایکو کے اجلاس میں بڑی تعداد میں ممالک کے سربراہان کی شرکت بھی اس بات کو تقویت دے رہی ہے۔
دنیا کے بڑے اقتصادی راہداری منصوبوں میں شامل اس منصوبے سے پاکستان دنیا بھر میں اہمیت اختیار کرگیا ہے۔کہیں روایتی حریف براہ راست دہشت گردی کے منصوبوں سے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کررہا ہے تو اختلاف رکھنے والے پڑوسی ممالک کی مدد سے اس منصوبے میں رکاوٹیں ڈالنے کے درپے ہے۔
چین کی بھاری سرمایہ کاری اور پاکستان کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور گوادر بندرگاہ کی تعمیر خطے میں اہم تبدیلیاں لارہی ہے۔اقتصادی راہداری منصوبے میں مغربی ممالک کی دلچسپی اور روس کی شمولیت کے امکان نے بھارت کو مزید خوفزدہ کردیا ہے ۔
اقتصادی راہداری پر جزوی تجارتی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں جبکہ راہداری کو ملک کے دیگر حصوں سے منسلک کرنے کا کام بھی تیزی سے جاری ہے ۔
سندھ ، پنجاب ، اور خیبرپختونخواہ میں مقامی سرمایہ کار بھی اس منصوبے سے تیزی سے منسلک ہورہے ہیں ۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں سی پیک کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔
خدشات کو دور کرنے کے لئے وزارت خارجہ اپنے امور نمٹارہی ہے لیکن اندرون خانہ کچھ خدشات سوالات بن کر جنم لے رہے ہیں جیسے کیا بھاری بیرونی سرمایہ کاری کے نتیجے میں منصوبوں کا براہ راست کنٹرول ملکی اداروں کے پاس ہی رہے گا ؟
کیا اتنی بڑی تعداد میں غیرملکیوں کی آمد کو ضابطہ کار میں رکھنے کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں؟
یقینا ًسی پیک اور اس سے منسلک منصوبوں پر غیرملکی ماہرین اور وہاں کے شہری بھی پاکستان کا رخ کریں گے ان کا تحفظ اور حدود متعین کرنا پالیسی ساز اداروں کا کام ہے۔
اقتصادی راہداری منصوبہ خطے میں گیم چینجر کی علامت ہے ۔افغانستان ، ایران ، عرب امارات سمیت خطے کے دیگر ممالک کو پاک چین اقتصادی راہداری کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے۔
وقت یہ بھی ثابت کردے گا کہ خطے کے ممالک اس منصوبے سے بھرپور استفادہ کرسکتے ہیں اور وہ خطے میںکسی ایک ملک کی جارحانہ پالیسی کی حمایت کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع نے نہ صرف جنوبی ، وسطی ایشیاء اور مشرق بعید بلکہ عالمی سطح پربھی مستقبل کی معاشی ترقی کا نقشہ وضع کردیا ہے ۔