19 مارچ ، 2017
شام کے وسطی شہر حمص کے ایک علاقے سے باغیوں اور ان کے خاندانوں نے بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ ایک سمجھوتے کے بعد انخلاء شروع کردیا ہے۔انھیں بسوں کے ذریعے شمالی صوبے حلب منتقل کیا جارہا ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان حمص کے علاقے الوعر کو خالی کرانے کا یہ سمجھوتا روس نے طے کرایا ہے اور اس کے فوجی ہی باغیوں اور ان کے خاندانوں کے شہر سے انخلاء کے عمل کی نگرانی کررہے ہیں۔
دس بارہ بسوں میں شامی باغی اور ان کے خاندان کے افراد حلب کی جانب روانہ ہوئے ۔شامی حزب اختلاف کے ذرائع کے مطابق سمجھوتے کے تحت آیندہ ہفتوں کے دوران میں الوعر سے مرحلہ وار دس سے پندرہ ہزار افراد کو ملک کے شمال میں منتقل کیا جائے گا۔
اس ڈیل کو صدر بشارالاسد کی فتح گردانا جارہا ہے کیونکہ ان کی مخالفت میں ہتھیار اٹھانے والے باغی گذشتہ چھے سال کی مزاحمت کے بعد اب ایک طرح سے سرنگوں ہوگئے ہیں ۔انھوں نے لڑائی جاری رکھنے کے بجائے مصالحت اختیار کر لی ہے اور اپنے آبائی علاقوں کو خالی کرکے جارہے ہیں۔
شامی حکومت نے اس طرح کے سمجھوتوں کو ’’قابل عمل ماڈل‘‘ قرار دیا ہے جس کے تحت اس کے بہ قول ملک چھ سال سے جاری خانہ جنگی کے بعد امن کی جانب لوٹ رہا ہے جبکہ حزب اختلاف نے اس کو ایک جنگی حربہ قرار دیا ہے جس کے تحت بشارالاسد کی مخالفت کرنے والوں کو زبردستی بے گھر کیا جارہا ہے حالانکہ وہ گذشتہ چھے سال کے دوران میں شامی فوج کے محاصرے اور بمباری کا سامنا کرتے رہے تھے۔
حمص کے گورنر طلال برازی نے برطانوی خبررساں ادارے بتایا کہ قریباً پندرہ سو افراد کو شمالی شہر حلب کے شمال مشرق میں واقع باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں بسنے کے لیے روانہ کیا جائے گا۔ان کے بہ قول ان میں کم سے کم چار سو جنگجو بھی شامل ہیں۔انھوں نے کہا کہ شامی عرب انجمن ہلال احمر کے ساتھ روسی اور شامی فورسز انخلاء کے اس عمل کی نگرانی کررہی ہیں اور یہ تمام عمل چھے ہفتوں میں مکمل ہوگا۔