08 اگست ، 2017
کوئٹہ کےسانحہ سول اسپتال کو ایک سال بیت گیا۔ الم ناک سانحے میں بلوچستان کےسینئر وکلا اور نامور قانون داں سمیت 56وکلاء لقمہ اجل بن گئےتھے۔ شہدا کے لواحقین کاغم ایک سال بعد بھی تازہ ہے۔
انہی لواحقین میں جواں سال وکیل سید ضیاء الدین کےاہل خانہ بھی شامل ہیں۔ بوڑھے والدین اپنے اکلوتے بیٹے اورچار بہنیں اپنے اکلوتے بھائی کو یاد کررہی ہیں۔ ان کی دو ننھی بیٹیاں بھی ہمیشہ کے لیے شفقت پدری سے محروم ہوگئیں تھیں۔
ان کی چھوٹی بیٹی تو ضیاء الدین کی شہادت کےڈیڑھ ماہ بعد پیدا ہوئی۔ ضیاء الدین کےوالد نے اپنے بیٹے اور سانحے کےحوالے سے ایک کتاب بھی تحریرکی ہے۔ وہ اب اس کی اشاعت کےحوالے سے تعاون کےمتمنی ہیں۔
دوسری جانب ضیاء الدین کی بڑی ہمشیرہ کہتی ہیں کہ ان کےلئے تو زندگی گزشتہ سال کےآٹھ اگست کےسانحہ کےبعد جیسے رک سی گئی ہے۔سارے گھروالے اس دن کےبعد سےآگےنہیں بڑھ سکے۔سید ضیاء الدین ہمہ وقت بوڑھےوالدین اور بہنوں کی یادوں میں رہتے ہیں۔
سانحہ سول اسپتال کے56شہیدوکلاء میں 39سالہ بیرسٹرعدنان کاسی بھی تھے جن کو یونیورسٹی لا کالج کا سب سے کم عمر پرنسپل ہونے کا اعزاز حاصل تھا، ان کے بوڑھےوالدین کے لیے اپنے بیٹے کی یادیں ہی زندگی کاسرمایہ ہیں۔
بیرسٹرعدنان کاسی کی والدہ کہتی ہیں’ سانحہ کو ایک سال ہوگیا لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ جیسے یہ پہلا دن ہے۔ ان کابیٹا قابل فخر تھا۔وہ دن ان کے لئے قیامت سے کم نہیں تھا۔‘
بیرسٹرعدنان کاسی کےوالد ارباب افضل کاسی کاکہناتھا کہ ان کے بیٹے نےجب برطانیہ سے بارایٹ لاء کیا تو سب کو گریجویشن کی تقریب میں شرکت کے لئے وہاں بلایا۔ سب بہت خوش تھے، ان کا بیٹا وہیں رہناچاہتا تھا مگر میں نے اصرار کر کے اسے پاکستان بلایا۔ اپنے کیرئیر کےحوالےسے وہ بہت پرعزم تھا، اسے بلوچستان کا سب سے کم عمر بیرسٹر اور یونیورسٹی لاء کالج کےکم عمر پرنسپل کااعزاز بھی حاصل تھا۔اس کی شہادت کےبعد بہت سے غریب لوگ آئے اور بتایا کہ وہ ان کےکیسز مفت لڑتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سانحے پیش آتےہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ دیگر لوگ تو بھول جاتے ہیں مگر ان سانحوں سے متاثر ہونے والے انھیں کبھی نہیں بھلاسکتے۔