15 اپریل ، 2017
اعظم خان
حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے 2018 کےعام انتخابات میں الیکٹرونک مشینوں کی بجائے بائیو میٹرک الیکشن کا مطالبہ کر دیا ۔
تحریک انصاف اپنے مطالبےپرقائم ہے کہ ووٹنگ الیکٹرانک مشینوں سے ہی کرائی جائے جبکہ حکومت کہتی ہے کہ مشینوں کااستعمال قومی سلامتی اوروسائل سے مشروط ہے ۔
آئندہ عام انتخابات میں ووٹنگ کیسے کرائی جائے ؟ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے معاملےپر بڑی سیاسی جماعتوں میں واضح اختلافات تاحال برقرار ہیں، پیپلز پارٹی کہتی ہے الیکٹرونک ووٹنگ دنیا بھر کاناکام تجربہ ہے ۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین ایک غیر شفاف طریقہ ہے اور دنیا کے بے اندازہ ملکوں میں یہ فیل ہو چکا ہے۔دوسرا بیلٹ پیپرز ایسا ہونا چائیے کہ جس پرواٹر مارک ہو تاکہ کوئی جعلی یا اپنے بیلٹ پیپرز نہ چھپوا سکے۔
کئی بیٹھکوں اور مذاکرات کےبعد بھی تحریک انصاف اپنے مطالبے پر قائم ہے جس کا کہناہے کہ جہاں حکمران ایماندار نہ ہوں وہاں صرف الیکٹرونک ووٹنگ سے ہی شفاف انتخابات ممکن ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی کا کہنا تھاکہ پوری دنیا کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں ضرورت ہے،بھارت کو ضرورت ہے، فلپائن کو ضرورت ہے، نائجیریا کو ضرورت ہے، برازیل کو ضرورت ہے، جہاں سسٹم ٹھیک ہیں ان سے مقابلہ کرنا ہے تو ویسے ہی کرو۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے ووٹنگ مشینوں کے استعمال کو قومی سلامتی، بہتر تجربے اور دستیاب وسائل سے مشروط کر دیا ہے۔
چیئرمین انتخابی اصلاحاتی پارلیمانی کمیٹی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے نیشنل سیکورٹی کو بھی دیکھنا ہے، ٹیسٹنگ اور ساری چیزیں، اس کی کاسٹ بھی دیکھنی ہے، رئیلائئبلٹی سب سے پہلا فیکٹرہے۔
الیکشن کمیشن حکام کا کہنا ہےکہ تمام تجربات کے بعد بھی پڑوسی ملک بھارت میں اب بھی دھاندلی کا واویلا مچایا جا تا ہے، عام انتخابات میں الیکٹرونک مشینیں استعمال کرنے کیلئے درکاروقت ناکافی ہے ۔