20 اپریل ، 2017
اکثریتی فیصلہ دینے والوں میں شامل جسٹس شیخ عظمت سعیدنے فیصلے میں لکھا ہے کہ بغیر دستخط شدہ دستاویزات پہ عدالت سے کسی نتیجے یا فیصلہ کی توقع کوئی معصوم یا اناڑی ہی کر سکتا ہے۔
دستیاب مواد کی روشنی میں مریم نواز کے وزیراعظم کے زیر کفالت ہونے کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں دیا جا سکتا، یہ کہنے سے قاصر ہیں کہ لندن کے چار فلیٹس، کاروبار، سعودی عرب کی ہل میٹل سے وزیر اعظم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
پاناما پیپرز کے مقدمے کا فیصلہ کرنےو الے بنچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ عدالت جے آئی ٹی کی رپورٹس کی روشنی میں وزیر اعظم کی نا اہلی بارے فیصلہ کرے گی، جائیداد کے حصول کی فنڈنگ کے ذرائع بارے ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے جا سکے، میاں شریف کی قطر کی التھانی فیملی کے ساتھ معاہدے یا سرمایہ کاری کی دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، اکاؤنٹس کو مبینہ سیٹل کرنے کے متعلق بھی نہیں بتایا گیا، سہ ماہی رقم نکلوانے، رقم کی ایک ملک سے دوسرے ملک منتقلی کی دستاویز بھی پیش نہیں کی گئیں، رقم کی منتقلی بارے کوئی بینکنگ دستاویز نہیں دی گئی۔
جسٹس شیخ عظت سعیدلکھتے ہیں کہ درخواست گزاروں کی طرف سے پیش کردہ زیادہ تر دستاویزات میں پاناما پیپرز کی نقول اور ای میلز ہیں جو دستخط شدہ بھی نہیں، سپریم یا ہائی کورٹ شہادتوں کو ریکارڈ کئے بغیر کسی شخص کو براہِ راست سزا نہیں دے سکتی، سینیٹر سراج الحق کی پٹیشن کی بنیاد ہی غلط فہمی پہ مبنی تھی، عدالت عظمیٰ کے اطمینان کے مطابق الزامات کو ثابت نہیں کیا جا سکا۔
دوسری طرف حسین نواز کے برٹش ورجن آئی لینڈ کمپنیوں کا شیئر ہولڈر ہونے کے متعلق کوئی دستاویز پیش نہیں کی گئیں، حسن اور حسین نواز کے وکیل نے اعتراف کیا کہ گلف اسٹیل ملز کے ذمہ ادائیگیوں کے معاملے میں خلا پایا جاتا ہے، دستایزات عدالت عظمیٰ سے چھپائی گئیں۔
جسٹس شیخ عظمت نے قرار دیا کہ چیئرمین نیب نے بے شرمی سے حدیبیہ پیپرز ملز میں اپیل نہ کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا، 20کروڑ آبادی میں صرف ایک شخص جو بد عنوانی کو قانونی شکل دے سکتا ہے وہ چیئرمین نیب ہے۔
وزیراعظم اور ان کے خاندان کےبیرون ممالک اثاثہ جات بارے سوالات تاحال جواب طلب ہیں، اس طرح کے بے نتیجہ ریاستی امور ناقابل قبول ہیں۔
جسٹس شیخ عظمت کہتے ہیںکہ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف الزامات ابھی پوری طرح ثابت نہیں ہوئے، کافی مشکوک چیزیں سامنے آئی ہیں اس لئے درست حقائق اور اثاثہ جات کے حصول کے ذرائع کو بے نقاب کرنےکے لیے تحقیقات ضروری ہیں ،ضرورت پڑنے کی صورت میں وزیر اعظم اور دیگر جواب گزاروں کو بیان ریکارڈ کرنے کے لیے عدالت طلب کرنے کے متعلق مناسب احکامات دئیے جا سکتے ہیں۔