بلاگ
08 مئی ، 2017

چار سو سالہ قدیم پل، مغل فن تعمیر کا عظیم شاہکار

چار سو سالہ قدیم پل، مغل فن تعمیر کا عظیم شاہکار

شاہان مغلیہ برعظیم پاک و ہند کے چپے چپے پر اپنے طلسماتی فن تعمیر کے نادر فن پارے چھوڑ گئے، گزشتہ دنوں مجھے لاہور کے قریب واقع شہر شیخو پورہ کے گردونواح میں جانے کا اتفاق ہوا، اسی سفر میں جب ہماری گاڑی ایک قدیم پل پر سے گزری تو میں نے گاڑی ایک طرف رکوالی کیونکہ مجھے اس پل میں مغل فن تعمیر کی جھلک نظر آ رہی تھی،تاہم ارد گرد کے لوگوں سے پوچھا تو اس حوالے سے کسی کو علم نہیں تھا۔

لاہور بہت عرصے تک شاہان مغلیہ کا پایہ تخت رہا ہے،مغُل اعظم شہنشاہ جلاالدین محمد اکبر کے ولی عہد شہزادہ سلیم کو شکار کا بہت شوق تھا اور وہ اکثر لاہور کے قریب اس مقام پر جس کو آج شیخو پورہ کہا جاتا ہے،شکار کیا کرتے تھے، جہانگیر اپنی تزک میں اس شاہی شکار گاہ کو جہانگیر آباد کا نام دیتے ہیں۔

شہنشاہ جہانگیر کا اصل نام سلیم تھا، شہنشاہ  اکبر اپنے ولی عہد کو پیار سے شیخو بابا کہتے تھے، اسی شاہی شکار گاہ میں شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر کا پیارا ہرن دفن ہے اور یہیں ہرن مینار کی تعمیر کا حکم دیا گیا جو آج بھی موجود ہے، اس ہرن مینار میں شہسوار چغتائی کا محبوب ہرن دفن ہے۔

جب اس پل کے بارے میں تحقیق کی تو انکشاف ہوا کہ اس پل کی تعمیر شہنشاہ جہانگیر کے حکم پر 1620ء میں شروع ہوئی، اس طرح یہ پل تقریبا 397سال پرانا ہے اور ابھی تک نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ اس کی حفاظت کے سلسلے میں حکام کوئی اقدامات نہیں اٹھا رہے۔

تزک جہانگیری میں بھی اس کی تعمیر کے حکم کا ذکر ملتا ہے، اکتوبر 1620ء میں شہنشاہ جہانگیر اپنی بیگمات اور درباریوں کے ہمراہ نئے تعمیر شدہ شیخوپورہ قلعہ میں مقیم تھے، اس سال بہت بارشیں ہوئیں، موسم بہت خوب تھا اسی لیے شہنشاہ نے شاہی شکار گاہ کا رخ کیا، واپسی پر شدید بارشوں کی وجہ سے نالوں میں طغیانی آ گئی، جموں کی پہاڑیوں سے نکلنے والی دیوکا یا ڈیگ ندی تاریخ میں اپنی متلون مزاجی کی وجہ سے خاصی بدنام رہی ہے، عام طور پر تو یہ ایک معمولی سے دھارے کی شکل میں بہتی ہے، لیکن ساون بھادوں کی بارش میں بپھرا ہوا اژدہا بن جاتی ہے۔

شاہی قافلہ ڈیگ کے کنارے تین چار روز رکا رہا، شدید بارشوں نے زمین کو دلدلی بنا دیا، شہنشاہ نے مستقبل میں ایسی کسی صورتحال سے محفوظ رہنے کےلیے اس جگہ ایک پل کی تعمیر کا حکم دیا ، چنانچہ مغل ماہر تعمیرات کام پر مامور ہوئے اور  1621ءکے موسم بہار تک ڈیگ پر پل بن چکا تھا۔

یہ پل آج بھی ضلع شیخوپورہ کے گاؤں کوٹ پندی داس سے کوئی ایک کلومیٹر جنوب مشرق کی جانب واقع ہے اور گاؤں کو لاہور سے شیخوپورہ جانے والی سڑ ک سے ملاتا ہے، یہ دو  حصوں پر مشتمل ہے، ندی کے جنوبی کنارے کی جانب ایک قدرے چھوٹا حصہ ہے جس کے نیچے پانی کی دو عدد گزر گاہیں ہیں، میرا اندازا ہے کہ یہ صرف شدید طغیانی میں کام آتا ہوگا، اس سے کوئی تیس میٹر ہٹ کر پل کا بڑا حصہ ہے جس کے نیچے چار بڑی گزر گاہیں ہیں، تمام گزر گاہیں قوس نما ہیں اور پل کی تعمیر چھوٹی اینٹ سے ہوئی ہےجو مغل دور کی یادگار ہے۔

تقریباً چار سو برس پرانے اس پل کا چونا جگہ جگہ سے اکھڑ چکا ہے، کئی جگہوں سے اینٹیں بھی بھربھرا گئی ہیں اور پل کے اوپر خوبصورتی کیلئے تعمیر شدہ برجیوں میں سے اب صرف ایک ہی محفوظ ہے، اس پل پر روزانہ بھاری بھرکم ٹریکٹر اور چھوٹی بسیں گزرتی ہیں لیکن کبھی کسی نے اس  پل میں جھول نہیں محسوس کیا اور نہ ہی پل کے کسی قوس میں کوئی دراڑ آئی ہے۔

ایک روایت ہے کہ اکتوبر 1652ء میں  شہنشاہ جہانگیر کا بیٹا شہاب الدین محمد شاہ جہان بھی شاہی قافلے سمیت یہاں پھنس گیا، اس مرتبہ بھی 30برس پہلے جیسا طوفان آیا اور ڈیگ بپھر گیا، شہنشاہ کو پل سے کچھ فاصلے پر رکنا پڑا، پل تو موجود تھا لیکن اس بارسیلاب اس قدر شدید تھا کہ پانی پل کے اوپر سے بہہ رہا تھا، تین روز کی شدید بارش کے بعد جب پانی اترا تو شہنشاہ جہانگیر کا بنوایا پل اپنی جگہ پر قائم رہا،جو آج بھی  موجود ہے۔

شہنشاہ جہانگیر موسم گرما کشمیر میں گزارتے تھے ،لاہور سے ان کو گویا عشق تھا اور انہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کو لاہور میں دفن کیا جائے، شاہی شکار گاہ ہونے کی وجہ سے شہنشاہ اکثر اس علاقے میں تشریف لایا کرتے، ڈیگ نالےکی دو شاخیں ہیں۔

شہنشاہ نے دونوں پر پل تعمیر کروائے چنانچہ اس پل سے چند کلومیٹر شمال مغرب کو ایک چھوٹی ڈیگ ندی بھی گزرتی ہے، بتایا جاتا ہے کہ 1976ء کے سیلاب میں وہ پل بہہ گیا، چنانچہ چھوٹی ڈیگ والے پل کا ملبہ آج بھی موجود ہے، ڈیگ ندی پر ایک اور پل بھی ہے شاہ دولہ کا پل کہلاتا ہے یہ پل بڑی ڈیگ پر ہے اور کوٹ پنڈی داس والے پل کی طرح آج تک استعمال میں ہے۔

اس پل کو شہنشاہ شاہجہان نے تعمیر کروایا، یہ ہمارا تاریخی ورثہ ہے اور ہم اس کی حفاظت سے غافل ہیں، یہ عظیم مغلوں کی عظمت کے وہ نقوش ہیں جو مٹتے جا رہے ہیں لیکن ان کا عطا کر تہذیب و تمدن اور زبان اردو کبھی نہ مٹ سکے گی۔
 
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں)