30 مئی ، 2017
ہمارے بچپن میں لوڈ شیڈنگ کا کوئی تصور نہیں تھا، نہ ہی کبھی اس قسم کا بریک ڈاؤن ہوا تھا کہ آدھا ملک ہی تاریکی میں ڈوب گیا ہو، البتہ کبھی تیز آندھی آ جاتی یا طوفانی بارش تو تھوڑی دیر کے لیے بجلی غائب ہو جایا کرتی تھی جس کو ہم زیادہ محسوس بھی نہ کرتے تھی۔
ان دنوں لوگ ڈربے نما گھروں میں نہیں رہا کرتے تھے اور نہ ہی گھر کے ہر کمرے میں اے سی اور ٹی وی کا تصور تھا۔
بھلے زمانے تھے صحن میں شام کو دادی اماں پانی کا چھڑکاؤ کر دیا کرتیں اور پی ٹی وی پر 8بجے والا ڈرامہ دیکھ کر اور 9بجے کا خبرنامہ سن کر سونے کی تیاریوں میں لگ جاتے۔
والد گرامی ہمیں تاریخ اسلام سے کوئی واقعہ سناتے اور ہم سنتے سنتے نیند کی وادیوں میں کھو جاتے۔
لاہور میں 90کی دہائی میں لوڈ شیڈنگ کا آغاز ہوا لیکن چار گھنٹے بعد زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے کیلئے،لاہوریوں کو اصل مزا پیپلز پارٹی کے دور میں آیا جب اٹھارہ، اٹھارہ گھنٹے بجلی غائب رہتی تھی،دلچسپ بات یہ تھی کہ لاہور کے قریبی شہر قصور میں بجلی کم جا رہی تھی۔
ان پالیسیوں نے پیپلز پارٹی کو انتخابات میں عبرت ناک شکست سے دوچار کیا، موجودہ حکومت کے دور میں صورتحال کافی بہتر ہے لیکن اس کے باوجود گرمی کے ستائے عوام بلبلا رہے ہیں۔
کراچی میں صورتحال بہت ابتر ہے، جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک کے خلاف یوم سیاہ منانے کا اعلان کر دیا ہے، ایم کیو ایم وزیر بجلی سے استعفیٰ مانگ رہی ہے، لوگ سڑکوں پر ہیں۔
خیبر پختونخوا میں لوگ بھلے بل دیں یا نہ دیں احتجاج وہ بھی کر رہے ہیں۔
ہم بھی عجیب لوگ ہیں، رمضان کے آتے ہی ہم نے ہر چیز کے دام چار گنا کر دیے ہیں، حکومت چھاپے مار رہی ہے، ہم نمازیں بھی پوری پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھ رہے ہیں اور عمرے پر عمرہ کئے جا رہے ہیں لیکن ادویات سمیت ہر چیز میں ملاوٹ ہے۔
ڈاکٹر قصائی بنے ہیں، سرکاری ملازم اپنی ڈیوٹی پوری نہیں کرتے، اسی طرح ہم بجلی چور ہیں، اگر ہمیں بجلی چوروں کا دیس کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا لیکن اس کے نتیجے میں جب لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔
جو لوگ دیانت داری سے بل ادا کرتے ہیں وہ ناحق رگڑے میں آ جاتے ہیں کیونکہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے۔
جنرل مشرف کے دور سے اس بدترین لوڈ شیڈنگ کا آغاز ہوا جب باہر سے درآمد شدہ وزیر اعظم نے بینکوں کے ذریعے دھڑا دھڑ کریڈٹ کارڈ بنانے کی پالیسی دی اور لوگوں نے گھروں میں اپلائینسز کا انبار جمع کر لیا۔
ہمارے پالیسی سازوں نے یہ نہیں سوچا کہ اتنی بجلی ہمارے پاس کہاں ہے؟ نتیجہ کیا ہوا کہ اچانک پورے ملک میں بریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اسی پالیسی کے تحت بینکوں سے لوگوں کے 13سو سی سی کی گاڑیاں اتنی زیادہ نکلوا لیں کہ بڑی گاڑی کا ہونا گویا مذاق بن گیا، محلے کی پرچون کی دکان پر بھی اے سی لگ گیا اور کریانے والے نے بڑی گاڑی قسطوں پر لے لی۔
بڑے شہر تو ایک طرف رہے چھوٹے شہروں میں بھی ٹریفک جام معمول بن گیا، جب ہمارے پالیسی ساز حماقتیں کرتے ہیں تو جناب ایسا ہی ہوتا ہے جو اس وقت ہو رہا ہے، پورے ملک میں گرمی کے شدید لہر کے ساتھ ساتھ بدترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ہمارے کان یہ سنتے سنتے پک گئے ہیں کہ اتنے ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں داخل ہو گئی ہے، دو ماہ بعد فلاں پاور پلانٹ اتنی بجلی بنائے گا، فلاں برس لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی، آخر اتنی بجلی کہاں جاتی ہے اور کب یہ وعدے ایفا ہوں گے، اب تو چچا غالب کا شعر حسب حال معلوم پوتا ہے کہ
تیرے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)