Time 16 اگست ، 2017
بلاگ

میاں نوازشریف کوکیوں نکالا گیا

تین مرتبہ منتخب اور تین مرتبہ سابق ہوجانے والے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف بار بار پوچھ رہے ہیں اور بڑی معصومیت سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کا قصور کیا ہے اور آخر انہیں کیوں نکالا گیا۔ حالانکہ اس کا جواب اگر انہیں معلوم نہیں تو نہیں ہوگا لیکن ہر باشعور پاکستانی کو معلوم ہے۔

میں نے بہت انتظار کیا کہ میاں صاحب کے کوئی خوشامدی تقریر نویس ان کو اس سوال کا جواب سمجھادیں گے لیکن چونکہ وزارت عظمیٰ سے معزولی کے بعد بھی سرکاری عہدے بانٹنے کا اختیار میاں صاحب کے ہاتھ میں ہے اس لئے شاید یہ تقریر نویس ان کو اس مقام تک پہنچانے کے بعد بھی خوشامد سے باز نہیں آئے ۔ وہ اب بھی میاں صاحب کے قدموں میں بیٹھ کر یا اللہ یا رسول ۔

نوازشریف بے قصور کے نعروں کے ساتھ، انہیں یہ غلط تاثر دے رہے ہیں کہ میاں صاحب آپ ہیں تو ترکی کے طیب اردوان لیکن مصر کے محمد مرسی کی طرح نکالا گیا ، اس لئے آپ طیب اردوان کی طرح ڈٹ جائیں ۔

یہ خوشامدی مشیر اگر خوشامد کی بجائے بروقت میاں صاحب کو ان کی غلطیوں کی طرف متوجہ کرتے تو شاید وہ آج اس انجام سے دوچار نہ ہوتے لیکن یہ لوگ اگر اب بھی باز نہ آئے اور میاں صاحب ان کے بہکاوے میں آکر حسب سابق اپنے بارے میں غلط اندازوں کا شکار رہے تو اب کی بار خاکم بدہن اپنے اور اپنے خاندان کے ساتھ ملک کو بھی مصیبت میں ڈال دیں گے ۔ اس لئے ضروری سمجھا کہ میاں صاحب کو اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں۔

محترم و مکرم میاں نوازشریف صاحب !

آپ کو اس لئے نکالا گیا کہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے سے قبل آپ نے وعدہ کیا تھا کہ اب کی بار اقتدار کی نہیں بلکہ اقدار کی سیاست کریں گے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد آپ نے صرف اور صرف اقتدار کی سیاست کی ۔

آپ جمہوری وزیراعظم تھے۔ آپ کی قوت پارلیمنٹ تھی لیکن آپ کے دور میں پارلیمنٹ جتنی بے وقعت ہوئی ، پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ آپ تو کیا آپ کے وزراء بھی اس پارلیمنٹ میں جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے ۔ اس پارلیمنٹ پر جمہوریت مخالف قوتوں کے بعض مہروں نے حملے کئے اور اس کی توہین کی اور آپ تماشا دیکھتے رہے۔ انہوں نے اس پارلیمنٹ سے استعفے دئیے اور اسے گالیوں سے نوازا لیکن آپ نے ان سے کوئی حساب نہیں لیا۔

اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے الٹا آپ نے منتیں کرکے ان کو دوبارہ پارلیمنٹ میں لا بٹھایا ۔ وہ قانونی طور پراسمبلی کے ممبر نہیں ہیں لیکن آج بھی وہاں بیٹھے ہیں اور الٹا آپ کےا سپیکر نے ان کو ان آٹھ ماہ کی حرام تنخواہیں بھی ادا کردیں جن میں وہ ایک دن کے لئے بھی اسمبلی میں نہیں آئے تھے ۔ آپ کو اس لئے نکالا گیا کہ نکالنے والوں کو یقین تھا کہ آپ جس بھی راستے سے نکالے گئے وہ بے وقعت پارلیمنٹ آپ کو بچاسکتی ہے اور نہ آپ کے کسی مخالف کا راستہ روک سکتی ہے ۔

آپ کو اس لئے نکالا گیا کہ آپ نے نہ تو احتساب کا منصفانہ نظام بنایا، نہ اچھی حکمرانی کے ذریعے طیب اردوان کی طرح عوام کے دل جیتے ۔ سویلین اداروں کو مضبوط کیا اور نہ نظام میں اسٹرکچرل تبدیلیاں لاسکے لیکن راتوں رات پاکستان کو ترکی اور اپنے آپ کو طیب اردوان ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جنرل (ر)پرویز مشرف کو آرٹیکل 6کے تحت سزا دینے کی ناکام کوشش کی ۔

آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ انتخابات کے چند روز بعد جب ہم آپ کے رائے ونڈ کے گھر میں بیٹھے تھے تو میں نے آپ سے گزارش کی کہ جنرل پرویز مشرف کو نہ چھیڑیں ۔ یاد ہوگا کہ عرض کیا تھا کہ پاکستان ابھی اس منزل سے کوسوں دور ہے کہ جس میں ایک ڈکٹیٹر کا محاسبہ ہوسکے لیکن آپ کو آپ کے خوشامدیوں نے اور میڈیا کے بعض عقابوں نے جو جنرل مشرف سے اپنا حساب برابر کرنا چاہتے تھے ،کے خلاف اقدام پر ابھار دیا۔

میڈیا میں موجود اس وقت کے آپ کے چہیتے آپ سے کہتے رہے کہ میاں صاحب قدم بڑھاؤ ، ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ چنانچہ پھر جب آپ کے خلاف دھرنے دلوانے گئے تو آپ کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ یوں آپ کو اس لئے نکالا گیا کہ پہلے آپ نے اپنے آپ کو برتر اخلاقی پوزیشن پر لائے بغیر پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ قائم کیا اور پھر مجبور ہوکر ان کو جانے دیا ۔

آپ کو اس لئے نکالا گیا کہ قوم نے آپ کو وزیراعظم پاکستان منتخب کیا تھا لیکن منتخب ہونے کے بعد آپ نے اپنے آپ کو وسطی پنجاب کا وزیراعظم بنا دیا۔ آپ نے بلوچستان میں سویلین بالادستی کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ آپ نے سندھ کو وہاں کے منتخب نمائندوں کی مرضی کے خلاف سیکورٹی اداروں کے ذریعے چلانے کی کوشش کی ۔

آپ نے فاٹا کو فوج کے سپرد کئے رکھا۔ فاٹا ، بلوچستان اور کراچی کے عوام سویلین بالادستی کے تصور سے ناواقف ہوگئے ہیں ۔ کم وبیش یہی حالات آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کےبھی ہیں ۔ فاٹا کے لوگ تو آپ سے پختونخوا کے ساتھ انضمام کی صورت میں اپنے لئے بنیادی انسانی حقوق کی بھیک مانگتے رہے ۔ اور تو اور آپ کی پارٹی کے رکن قومی اسمبلی شہاب الدین اسمبلی کے فلور پر رودئیے لیکن آپ مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کادل بہلاتے رہے ۔ اپنے پنجاب میں تو آپ نے رینجرز کے اختیارات پر بڑی لے دے کی لیکن کسی اور صوبے یا فاٹا میں کبھی سویلین اداروں کے اختیار کے لئے آپ فکر مند نہ ہوئے ۔ یوں نکالنے والوں کو یقین ہوگیا تھا کہ جب آپ کو نکالا جائے گا تو پنجاب کے سوا کسی اور صوبے یا قومیت سے آپ کے حق میں آواز نہیں اٹھے گی ۔ اس لئے آپ کو نکالا گیا۔

آپ کو اس لئے نکالا گیا کہ آپ نے سی پیک جیسے اسٹرٹیجک اہمیت کے معاملے کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یہ پروجیکٹ محروم علاقوں کی محرومیوں کے لئے علاج اور دہشت گردی کے مسئلے کے لئے تریاق بن سکتا تھا لیکن آپ نے مغربی روٹ سے متعلق جھوٹ بول کر مشرقی روٹ پر کام کا آغاز کردیا۔ آپ نے اس کے ثمرات سے بلوچستان، گلگت بلتستان، پختونخوا اور فاٹا کو محروم رکھ کر سب چیزیں وسطی پنجاب میں سمیٹ دیں ۔ آپ کے اہل خانہ اور احسن اقبال کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ توانائی کے منصوبوں کے معاہدے کن شرائط کے ساتھ ہوئے ہیں ۔ اس پروجیکٹ کے ذریعے آپ نے وسطی پنجاب کے اپنے نمائندوں کو تو خوشحال بنا دیا لیکن اس نے گلگت بلتستان ، بلوچستان ، آزادکشمیر اور پختونخوا کی محرومیوں کو مزید بڑھا دیا۔ چنانچہ نکالنے والوں کو یقین تھا کہ جب آپ کو نکالا جائے گا تو نہ صرف ان علاقوں کے لوگ آپ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے بلکہ شاید آپ کو بددعائیں بھی دے رہے ہوں گے ۔

دھرنوں کے موقع پر آصف علی زرداری آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔ لیکن پھر جب سندھ میں ان کے ساتھ حساب برابر کیا جارہا تھا اور انہوں نے اینٹ سے اینٹ والا مشہور زمانہ بیان دے دیا تو ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے آپ نے اگلی صبح ان کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کردی ۔ اب نکالنے والوں کو یقین تھا کہ جب آپ کو نکالا جائے گا تو آصف علی زرداری آپ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے ، اس لئے آپ کو نکالا گیا۔

آپ کے دور میں وزارت خارجہ کاستیاناس ہوگیا۔ آپ نے چین ، ترکی ، سعودی عرب اور حتیٰ کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات بدلنے کی کوشش کی ۔ فوج اور دفتر خارجہ کے مشورے کے برعکس آپ نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں گئے ۔ پھر وہ پراسرار انداز میں آپ کے گھر آئے ۔ یہ انداز پاکستان میں ناقابل برداشت ہوتا ہے اور اس لئے آپ کو نکالا گیا۔

محترم میاں صاحب ! آپ نے کبھی فوج اور دیگر اداروں کے ساتھ بطور ادارہ تعلقات استوار کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ آپ اداروں کی بجائے شخصیات کو اپنانے اور ان پر کام کرنے کا رویہ اپناتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے دور میں پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی قائم تھی جو حکومت کے ساتھ سول ملٹری تعلقات کا بوجھ اٹھاتی تھی ۔ آپ نے اقتدار میں آنے کے بعد وہ کمیٹی ختم کردی ۔ پیپلز پارٹی مطالبہ کرتی رہی لیکن آپ نے چار سالوں میں وہ کمیٹی قائم نہیں ہونے دی ۔ کیونکہ آپ فوج کے ساتھ تعلقات میں پارلیمنٹ یا اپوزیشن کو نہیں لانا چاہتے تھے ۔ اسی طرح آپ کابینہ کی دفاع اور قومی سلامتی کی کمیٹی کا اجلاس بلا کر متعلقہ فورم پر ادارہ جاتی انداز میں سول ملٹری تنازعات حل کرنے کی بجائے ون ٹوون خفیہ ملاقاتوں کے ذریعے کام چلاتے رہے۔اس کا نتیجہ بگاڑ کی صورت میں ہی نکلنا تھا اور شاید اس لئے آپ کو نکالا گیا۔

مذکورہ اور اسی نوع کے دیگر عوامل نے تو راستہ ہموار کیا لیکن میاں صاحب ! اصل قصور آپ کا یہ ہے کہ آپ وزیراعظم توپاکستان کے تھے لیکن آپکے بچوں اور آپکے وزیرخزانہ کے بچوں کا کاروبار باہر رہا۔ آپ تاثر دیتے رہے کہ بیرون ملک آپ کا کچھ بھی نہیں لیکن جب پانامہ اسکینڈل کی صورت میں آپ پکڑے گئے تو پھر مسلسل آپ کے اہل خانہ کی طرف سے بیانات بدلتے رہے ۔ آپ خود اس معاملے کو عدالت میں لے گئے ۔ خود ہی جے آئی ٹی کی تشکیل کا خیرمقدم کیا ۔ یہ درست ہے کہ عدالت میں تادم تحریر مخالفین آپ کو براہ راست کرپشن کا مرتکب ثابت نہ کرسکے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ آپ اپنے آپ کو معصوم بھی ثابت نہ کرسکے ۔ مخالفین نے آپ کو جھوٹا یا بددیانت ثابت کیا یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ بھی شواہد اور دلائل کے ساتھ اپنے آپ کو صادق اور امین ثابت نہ کرسکے ۔ اس لئے آپ کو نکالا گیا۔

محترم میاں نوازشریف صاحب!

امید ہے آپ کو کسی حد تک آپ کے سوال کا جواب ملا ہوگا لیکن اگر اب بھی تشفی نہیں ہوئی تو میں مزید درجنوں صفحات سیاہ کرکے ، سینکڑوں مزید وجوہات تحریر کرسکتا ہوں جو آپ کو نکالے جانے کا موجب بنیں ۔ مجھے امید ہے کہ آپ مزید یہ سوال نہیں اٹھائیں گے لیکن اگر اس کے بعد بھی اٹھایا تو ہم جیسے طالب علم مزید وجوہات سامنے رکھنے پر مجبور ہوں گے۔

یہ آرٹیکل روزنامہ جنگ میں 16 اگست کو شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔