16 اگست ، 2017
نوازشریف کے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد ملکی سیاست میں ایسا بھونچال آیا کہ لوگ اب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ سمجھ نہیں پا رہے۔ عوام جاننا چاہ رہے ہیں کہ اس فیصلے کے بعد پاکستانی سیاست کا مستقبل کیا ہوگا اور اس کے اثرات سے سیاسی حالات کس حد تک متاثر ہوں گے؟
شاہد خاقان عباسی کو 2018 کے عام انتخابات تک وزیراعظم رکھا جائے گا یا وہ تبدیل کردئیے جائیں گے۔ گو کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اسلام آباد سے ریلی شروع کرنے سے پہلے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے یہ کہہ کر روانہ ہوئے تھے کہ ان کی خواہش ہے کہ شاہد خاقان 2018 تک مدت پوری کریں۔
لیکن نواز شریف پہلےاپنے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلی میاں شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا اعلان کیا تھا کہا یہ جا رہا تھا کہ حلقہ این اے 120 سے جناب شہباز شریف کو منتخب کروانے کے بعد انہیں وزارت عظمی کے عہدے پر فائز کیا جائے گا اور پھر اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کو ٹکٹ جاری کردیا۔
قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن جیتنے کی صورت میں بیگم کلثوم نواز وزیراعظم ہاوس کی طرف جاتی نظر آرہی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس فیصلے نے میاں شہباز شریف کا وفاق میں جانے کا راستہ بند کردیا گیا ہے۔ میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ میاں شہباز شریف پنجاب کی جان اور شان ہیں دوسرے الفاظ میں شہباز صاحب آپ وزیر اعلی پنجاب ہی بنے رہیں۔
میاں نوازشریف نے جب شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا اعلان کیا تو میاں شہباز شریف کو ہر طرف سے مبارک بادیں ملنا شروع ہوگئیں تھیں۔ قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف خود بھی وزرات عظمی کا عہدہ سنبھالنا چاہتے تھے اور جب صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے وزیراعلی شہباز شریف سے خصوصی ملاقات کرکے انہیں پنجاب میں رہنے کا مشورہ دیا تو میاں شہباز شریف کو ان کا یہ مشورہ پسند نہیں آیا تھا۔
نواز شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنی بات پر قائم رہتے ہیں لیکن انہیں گھر کے دباؤ میں آکر فیصلہ تبدیل کرنا پڑا اور میاں شہباز شریف کو یہ تکلیف دہ فیصلہ شریف گھرانے کےدیگر افراد کی موجودگی میں سنایا گیا ۔
میں نے 13 جولائی کے کالم میں تحریر کیا تھا کہ حلقہ این اے 120 سے بیگم کلثوم نواز انتخابات لڑیں گی اور انہیں وزیراعظم بنایا جا سکتا ہے۔ اب حلقہ این اے 120 سے مسلم لیگ نواز کے پلیٹ فارم سے بیگم کلثوم نواز نے کاغذات نامزدگی داخل کروا دیے ہیں ۔
میاں شہباز شریف کو وزارت عظمی کے منصب سے دور کرنے کا فیصلہ تو میاں نواز شریف نے اپنے گھر کے افراد کے سامنے سنایا لیکن دوسرے گھرانے میں وزیراعلی پنجاب جناب شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی کو بھی یہ بات کوئی اچھی نہیں لگی اور انہوں نے شوشل میڈیا پر بھرپور انداز میں جواب دیا اور اپنے دل کی بات عوام کے سامنے رکھ دی ۔
اپنے ٹوئیٹ میں انہوں نے کہا کہ "ریلی کی سیکیورٹی وزیراعلیٰ پنجاب کے ذمہ کرنا بے رحمانہ عمل ہے اور بڑے بھائی کو اپنے چھوٹے بھائی کو تنازعات میں نہیں لانا چاہئے۔
یہ تو بات رہی شہباز شریف کو وزارت عظمی سے دور رکھنے اور بیگم کلثوم نواز کو ایم این اے بنوانے کے لئے ٹکٹ جاری کرنے کی ۔
اگر دیکھا جائے تو بیگم کلثوم بھرپورسیاست کرنا جانتی ہیں اور اگر انہیں موقع ملا تو ممکن ہے کہ وہ حکومتی امور بھی بخوبی چلا لیں کیوں کہ مشرف دور میں جب نواز شریف کو قید کرلیا گیا تھا تو ان کے رہائی کی تحریک بیگم کلثوم نواز نے ہی چلائی تھی۔ اس کے علاوہ بیگم کلثوم نواز تین دہائیوں سے ہر معاملے میں میاں نواز شریف کا بھر پور انداز میں ساتھ دیتی ائی ہیں۔ ان معاملات میں کئی حکومتی امور میں ان کے مشورے شامل ہوتے تھے ۔ انہوں نے نواز شریف کی کئی تقریریں بھی لکھوائیں اور تقاریر کو درست بھی کیا۔ وہ خود بھی اردو میں ماسٹرز ڈگری کی حامل ہیں اور بس اب انتظار اس بات کا ہے کہ کیا ایم این اے بننے کی صورت ان کو وزیراعظم بنایا جاتا ہے یا پھر 2018 کے الیکشن کے بعد انہیں اس منصب پر فائز یا جائے گا۔
رئیس انصاری جیو نیوز کے لاہور میں بیوروچیف ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔