22 اگست ، 2017
افواج پاکستان، پولیس اور عوام نے ایسی قربانیاں دیں اور دے رہی ہیں کہ اقوام ان پر رشک کررہی ہیں لیکن مطلب ہر گز یہ نہیں کہ دہشت گردی کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ وقتی کمی ضرور آئی ہے لیکن مسئلہ حل ہوا ہے اور نہ ہونے جارہا ہے۔
ہم دیگر مباحث میں پڑ گئے ہیں اور انتہاپسندی و دہشت گردی کے ام المسائل سے توجہ ہٹ گئی ہے لیکن قرب و جوار میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ برے نہیں بلکہ بھیانک مستقبل کی خبریں دے رہا ہے۔ جو کمی آئی ہے وہ اس وجہ سے نہیں کہ گیم ختم ہوگیا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ گیم تبدیل ہورہا ہے اور اس کے مختلف کرداروں کے کیمپوں اور رول کا ازسر نو تعین ہورہا ہے۔
دہشت گردی کی سب سے بڑی وجہ وہ انتہاپسندانہ مذہبی فکر ہے جس کے نتیجے میں طالبان، القاعدہ اور داعش جیسے نظریات جنم لیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا مذہبی اورنظریاتی بنیادوں پر اس بیانیے کا متبادل بیانیہ ریاست پاکستان نے سامنے رکھ دیا ہے ؟۔ جواب نفی میں ہے۔ بلکہ ابھی تک ریاستی سطح پر اس بیانیہ کی غلطی واضح کی گئی ہے اور نہ متبادل بیانیہ سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ دوسری بنیادی وجہ مذہب کا سیاسی اور تزویراتی مقاصد کے لئے استعمال ہے تو کیا ہمارے ہاں ان دو مقاصد کے لئے مذہب کے استعمال کا سلسلہ رک گیا ہے ؟، جواب نفی میں ہے۔
تیسری بنیادی وجہ ہماری افغان اور کشمیر پالیسیاں تھیں۔ اس تناظر میں نان اسٹیٹ ایکٹرز کہیں نہ کہیں ہمارے لئے اثاثہ بن جاتے تھے۔ تو کیا کشمیر اور افغانستان کے محاذوں پر پاکستان کے مقاصد حاصل ہو گئے ہیں ؟ جواب پھر نفی میں ہے۔یا کیا ہم نے دونوں سے متعلق سوچ اور پالیسی یکسر بدل دی ہے ؟۔ جواب یہ ہے کہ سوچ کسی حد تک بدلی ہے لیکن پالیسی کو ہم اس حد تک تبدیل نہیں کرسکے۔ یوں ہم کسی نہ کسی سطح پر اچھے اور برے عسکریت پسند کی تفریق کے اب بھی شکار ہیں۔
چوتھی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہم افغانستان سے اپنے آپ کو نکال سکے اور نہ اپنے آپ کو افغانستان کے حالات کے اثرات سے بچاسکے۔ تو کیا افغانستان کے حالات درست جانب جارہے ہیں۔ جواب نفی میں ہے بلکہ افغانستان ایک نئی تباہی کے دہانے پرکھڑا نظر آرہا ہے۔ تو کیا ہم نے اپنے آپ کو افغانستان کے حالات کے اثرات سے محفوظ کرلیا ہے۔ جواب پھر نفی میں ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرین واپس جاچکے ہیں، بارڈر مینجمنٹ کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور نہ ہم قبائلی علاقوں کا خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کر چکے ہیں۔
پانچویں بنیادی وجہ ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے خراب تعلقات بلکہ دشمنی ہے۔ تو کیا ہمارے تعلقات ٹھیک ہوگئے ہیں یا پھر کیا ہم ہندوستان کو زیر کرچکے ؟۔ جواب پھر نفی میں ہے۔ بلکہ ہندوستان کی پاکستان کے اندر سازشیں کرنے کی صلاحیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اس کے پاس پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے پراکسیز کی تعداد بڑھ گئی ہے اور ان کو استعمال کرنے کیلئے اس کے پاس وسائل بھی بڑھ گئے ہیں۔
چھٹی بنیادی وجہ پاکستان کے اندر ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار تھی۔ تو کیا سعودی عرب اور ایران کی دشمنی میں کمی آئی ہے یا پھر انہوں نے پراکسی وار ترک کردی ہے۔ جواب پھر نفی میں ہے بلکہ یہ جنگ مزید شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ساتویں بنیادی وجہ امریکہ کے ساتھ ہمارے پیچیدہ تعلقات تھے۔
پاکستان اور امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حلیف بھی ہیں اور حریف بھی۔ دوست بھی ہیں اور دشمن بھی۔ تو کیا اس تعلق کا یہ تضاد ختم ہوگیا ہے ؟۔ جواب پھر نفی میں ہے بلکہ دونوں کی ایک دوسرے سے متعلق بداعتمادی روز بروز مزیدبڑھتی جارہی ہے۔
آٹھویں اور بنیادی وجہ پاکستان کے اندر سول ملٹری تقسیم ہے۔ انتہاپسندی، دہشت گردی، افغانستان اور ہندوستان کی پالیسیوں سے متعلق اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی سوچ میں فرق ہمیشہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ تو کیا سول ملٹری ہم آہنگی بڑھ گئی ہے ؟۔ جواب پھر نفی میں ہے بلکہ میرے نزدیک یہ فرق یا تناؤ بڑھتا جارہا ہے۔
نویں بنیادی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے اندر معاشی تفاوت بہت بڑھ گیا ہے۔ کچھ لوگ حد سے زیادہ امیر اور کچھ حد سے زیادہ غریب۔ اسی طرح کچھ علاقے حد سے زیادہ پسماندہ اور کچھ حد سے زیادہ خوشحال۔ جس کی وجہ سے پاکستان مخالف طاقتیں آسانی کے ساتھ حد سے زیادہ غریب طبقات کو اشتعال میں لاکر استعمال کرسکتی ہیں۔ا سی طرح حد سے زیادہ محروم علاقوں مثلاً بلوچستان، فاٹا اور گلگت بلتستان وغیرہ کو آسانی کے ساتھ ریاست پاکستان کے خلاف جنگوں کا میدان بناسکتی ہیں۔ تو کیا اس غیرمساوی تقسیم میں کمی آئی ہے۔ جواب پھر نفی میں ہے۔ بلکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران یہ تفریق مزید بڑھ گئی ہے۔
نوازشریف حکومت نے سی پیک کو جس طرح سیاست اور علاقائیت کی بھینٹ چڑھا دیا، اس کی وجہ سے محروم علاقوں کی محرومیاں مزید بڑھ گئیں۔
دسویں اور شاید سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر مختلف اداروں کے مابین ہم آہنگی اور کوآرڈنیشن نہیں تھی۔ خفیہ ایجنسیاں داخلی سیاسی معاملات میں حد سے زیادہ دخیل ہوگئی ہیں۔ صوبوں اور مرکز کے مابین کوآرڈنیشن کا فقدان ہے۔ پھر سول اور ملٹری اداروں کے مابین کوآرڈنیشن کی بجائے مقابلہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ایک ایجنسی ایک لائن پر اور دوسری دوسری لائن پر گامزن نظر آتی ہے۔ تو کیا یہ منفی رجحان کم ہوا ہے ؟۔ جواب نہ صرف نفی میں ہے بلکہ پچھلے سالوں کے دوران یہ سلسلہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔
بعض اوقات تو یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ ادارے دشمن سے نہیں آپس میں لڑرہے ہیں۔ نیکٹا (NACTA) کا ادارہ اس خیال سے بنایا گیا تھا کہ وہ خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین کوآرڈنیشن کو بہتر بنائے لیکن یہ اختلاف اور مقابلہ اس قدر گہرا ہے کہ وہ ادارہ اٹھ ہی نہیں سکا۔ اسی طرح مقننہ، عدلیہ اور سلامتی اداروں کی بھی ان معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی نظر نہیں آتی بلکہ میاں نوازشریف کی رخصتی کے بعد جو حالات بنے ہیں، ان کے تناظر میں یہ خطرہ ہے کہ رہی سہی ہم آہنگی بھی ختم ہوجائے گی۔
جب معاملے کے روٹ کازز میں سے کسی ایک کو بھی جڑ سے اکھاڑ نہیں پھینکا گیا بلکہ اس جانب ابھی سفر کا آغاز بھی نہیں ہوا ہے تو پھر ہم کس بات پر مطمئن ہیں کہ مسئلہ حل ہونے کو ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف وقتی جنگ کررہے ہیں۔ ہم نے جامعیت کے ساتھ مسئلے کی تشخیص اور ا س کے حل کے لئے ایک ہمہ پہلوپالیسی ہی وضع نہیں کی۔
ہم ایک اندھی جنگ لڑرہے ہیں۔ ہم انتہاپسندی کے خلاف جنگ تولڑرہے ہیں لیکن نہ پوری تشخیص کی ہے اور نہ اس کے لئے کوئی پالیسی تشکیل دی ہے۔ اسی طرح ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں اور بے تحاشا قربانیاں دے رہے ہیں لیکن یہ شاید دنیا کی واحد ریاست ہے کہ جس کی دہشت گردی کے خلاف کوئی واضح اور جامع پالیسی نہیں ہے۔ ہم نے آج تک اس سوال کا جواب ہی تلاش نہیں کیا کہ لوگ انتہاپسند اور یا دہشت گرد کیوں بنتے ہیں۔
ان کی سوچ کیا ہے اور اس سوچ کاتوڑ کیا ہے۔ ہماری وہ ریاست ہے کہ جس کی واضح خارجہ پالیسی ہے اور نہ داخلی سلامتی پالیسی۔ ہر فرد اور ہر ادارے کی اپنی اپنی تشخیص ہے اور ہر ایک کا اپنا اپنا حل ہے۔ حل بھی تلاش کیا جاسکتا ہے اور واضح پالیسی بھی وضع کی جاسکتی ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ اس معاملے کو ترجیحات میں سرفہرست رکھا جائے اور پھر آزادانہ مکالمے کے ذریعے سول ملٹری اور ادارہ جاتی ہم آہنگی سامنے لائی جائے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ ان حالات میں وہ ہم آہنگی کیسے لائی جائے جب ایک دوسرے پر سازش کا الزام لگاتا ہے اور دوسرا پہلے پر۔ جب وزیراعظم اپنے اداروں پر شک کررہے ہوں اور اپنے ادارے وزیراعظم کی حب الوطنی سے متعلق سوال اٹھارہے ہوں تو یہ مکالمہ ہوسکتا ہے اور نہ مطلوبہ ہم آہنگی حاصل کی جاسکتی ہے۔
یہ کالم روزنامہ جنگ میں 22 اگست کو شائع ہوا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔