Time 07 ستمبر ، 2017
بلاگ

معرکہ این اے 120 لاہور: کون کتنا مضبوط؟

لاہور کے حلقہ این اے 120 میں ہونے والے ضمنی انتخابات پر پورے ملک کی نظریں لگی ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اگر ہم کسی دوسرے شہر میں اپنے دوست یا رشتہ دار سے بات کریں تو یہ بات ضرور پوچھتے ہیں کہ حلقہ این اے 120 سے کون جیتے گا؟

کیا میاں صاحب کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز اس نشست کو جیت سکیں گی یا پھر پی ٹی آئی کی ڈاکٹر یاسمین راشد اس بار اپ سیٹ کریں گی؟ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں کمزور پوزیشن کو دیکھتے ہوئے کئی لوگ پی پی پی کے امیدوار فیصل میر کے متعلق بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں۔

دیگر امیدواروں کے نام لوگ اس لئے نہیں پوچھتے کے بظاہر وہ الیکشن میں تو ہیں لیکن حلقے میں ان کی کامیابی کو امکانات نا ہونے کے برابر ہیں اور انہیں قابل ذکر نہیں کہا جا سکتا۔ لاہور کے اس حلقے میں ضمنی انتخابات 17 ستمبر کو ہونے ہیں اور امیدواروں کی انتخابی مہم زور و شور سے جاری ہیں۔

حلقہ این اے 120 میں ہونے والے ضمنی انتخابات اس وجہ سے اہمیت اختیار کرگیا کہ سابق وزیراعظم اس حلقے سے کامیاب ہوئے اور اب ان کی نااہلی کے بعد ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز میدان میں ہیں جبکہ ان کی بیٹی مریم نواز پہلی مرتبہ کسی الیکشن مہم چلا رہی ہیں ۔ اور لوگوں کا ماننا ہے کہ ایک طرح سے میاں نوازشریف خود ہی انتخابات میں اتر آئے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس حلقے کے الیکشن کوعام انتخابات کی طرح بڑا معرکہ سمجھا جارہا ہے۔

تحریک انصاف اور ن لیگ کی جانب سے انتخابات میں کامیابی کے لئے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ جہاں ڈاکٹر یاسمین راشد گھر گھر جا رہی ہیں وہیں مریم نواز بھی گلی گلی اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلارہی ہیں۔ دونوں رہنماووں کے کارکنان حلقے میں کارنر میٹنگز منعقد کر رہے ہیں ساتھ ہی دونوں نے اپنے اپنے بلدیاتی نمائندوں کو بھی متحرک کررکھا ہے جو منظم انداز میں اپنے محلوں اور گلی کوچوں میں اپنے اپنے امیدوار کی کنونسنگ میں مصروف ہیں۔ ٹیلیوژن چینلزسے اخبارات تک ہرجا سیاسی پنڈت این اے 120 لاہور کے بارے میں اپنا نکتہ نظر بیان کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

لاہور کا یہ حلقہ ن لیگ کا قلعہ سمجھا جاتا ہے۔ 1985 سے اب تک اس حلقے سے مسلم لیگ ن کا امیدوار ہی کامیاب ہوتا رہا ہے۔ میاں نواز شریف نے جب بھی الیکشن لڑا تو اسی حلقے سے اور جیتے بھی رہے ۔ 1988 کی مردم شماری کے بعد یہ حلقہ این اے 95 کہا جاتا ہے تھا اور نواز شریف نے یہاں سے تین بار کامیابی حاصل کی۔ حلقوں کی تعداد بڑھی تو یہ حلقہ این اے 120 بن گیا۔ سنہ 2002 کے انتخابات میں اس حلقے سے ن لیگ کے موجودہ وزیر تجارت ملک پرویز کامیاب ہوئے تھے۔ سنہ 2008 کے الیکشن میں بیگم کلثوم کے رشتہ دار بلال یاسین ایم این اے بنے جو اب پنجاب کے وزیر خوراک ہیں اور 2013 کے الیکشن میں میاں نواز شریف یہاں سے کامیاب ہوئے اور وزیراعظم بنے۔

حالیہ ضمنی انتخابات میں اس حلقے سے بیگم کلثوم نواز کے انتخاب لڑنے سے یہاں خوب گہما گہمی نظرآرہی ہے ۔ اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلانے والی مریم نواز این اے 120 میں شامل حلقہ پی پی 140 میں زیادہ زور لگا رہی ہیں جس کی وجہ 2013 کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف کو ملنے والے 10 ہزار ووٹوں کی برتری ہے ۔ ان الیکشن میں میاں صاحب کی کل برتری 40 ہزار ووٹ کے قریب تھی جب کہ پی پی 139 میں ن لیگ کی برتری 30 ہزار ووٹوں کے قریب تھی۔ یہ حلقہ صوبائی وزیر بلال یاسین کا ہے جو کہ بیگم کلثوم نواز کے رشتہ دار ہیں۔

تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد نے 2013 میں میاں نواز شریف کا زبردست مقابلہ کیا تھا اور اس حلقے سے نواز شریف کے مقابلے میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی واحد امیدوار ہیں۔ اس بار بھی وہ اس حلقے سے ایک مضبوط امیدوار ہیں جو گھر گھر جاکر ووٹ مانگ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کے سابق ڈپٹی میئر طارق ثناء باجوہ اور سابق ایم پی اے آجاسم شریف بھی ڈاکٹر یاسمین کی حمایت کر تے ہیں۔ یہ دونوں رہنما اس حلقے میں اچھا اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کا حلقہ ہونے کے باجود اس حلقے میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لوگوں کو پینے کے پانی، صفائی ستھرائی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور دیگر بنیادی سہولیات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ یہاں کے رہاشیوں کا شکوہ بھی یہی ہے کہ جس طرح لاہور کے مختلف مراعات یافتہ علاقوں میں ترقیاتی سرگرمیاں ہوئیں اس طرح این اے 120 پر توجہ نہیں کی گئی۔

تاہم مریم نواز کا کہنا ہے کہ جتنا کام مسلم لیگ ن نے اس حلقے میں کیا وہ شاید ہی کسی دوسرے نے کیا ہو۔ ان کا ماننا ہے کہ اس حلقے کے لوگ نواز شریف کو چاہتے ہیں ان پر جان نثار کرتے ہیں۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ وہ اس حلقےمیں اپنی والدہ کی بھرپورانتخابی مہم چلارہی ہیں جس کی نتیجہ 17 ستمبر کو نظر آئے گا۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کے مطابق اس حلقے کا بہت برا حال ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے جیتنے کے بعد یہاں کبھی قدم بھی نہیں رکھا۔ لوگوں کو پینے کا پانی تک میسر نہیں۔ لوگ کہتے ہیں انہیں پانی خریدنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ وہ حکومت میں تو نہیں لیکن وہ آواز اٹھا رہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس حلقے کی سڑکیں بننا شروع ہوگئیں ہیں جب کہ صوبائی حکومت کا یہ اقدام انتخابی ضابطے کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد ترقیاتی کام نہیں کرایا جاسکتا تاہم وہ جیتنے کے لئے پرعزم ہیں۔

حالیہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ تاہم پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے امیدوار بھی اپنا پورا زور لگا رہے ہیں۔ جیت کس کے مقدر میں آئی اور کسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا یہ سب 17 ستمبر کی شب معلوم ہو جائے گا۔


سینئر صحافی رئیس انصاری جیو نیوز کے لاہور میں بیورو چیف ہیں اور ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔