Time 26 ستمبر ، 2017
بلاگ

تباہی سے بچاؤ کا راستہ

سوچ سوچ کر تھک گیا لیکن پاکستان کی موجودہ افغان پالیسی کی منطق کو نہ سمجھ سکا۔ اگر تو اس کا مقصد یہ تھا کہ افغانستان کے اندر ہندوستان کے اثرورسوخ کو روکا جائے تو الٹاوہ تو دن بدن بڑھتا گیا ۔ 1980کے مقابلے میں آج افغانستان میں ہندوستان کا اثرورسوخ کئی گنا بڑھ گیا ہے ۔

اگر تو مقصد یہ تھا کہ افغانستان کو زیردست یا دوست رکھا جائے تو یہ مقصد بھی حاصل نہ ہوسکا۔ ستر کی دہائی کے مقابلے میں آج افغانستان کئی گنا زیادہ مشتعل اور پاکستان مخالف ہے۔ پاکستان کا اثرورسوخ روز بروز کم ہورہا ہے اور موجودہ پالیسی کے نتیجے میں پاکستان مخالف جذبات اس قدر بڑھ گئے کہ اب گلبدین حکمت یار جیسے لوگ بھی پاکستان کے حق میں لب کشائی نہیں کرسکتے۔

اگر تو مقصد یہ تھا کہ یقینی بنایا جائے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو تو یہ مقصد حاصل ہوا اورنہ موجودہ پالیسی کے ساتھ حاصل ہوتا نظر آرہا ہے۔ سترکے مقابلے میں آج افغان سرزمین پاکستان کے خلاف کئی گنا زیادہ استعمال ہورہی ہے۔ جب کوئی بھی مقصد حاصل نہیں ہوا اور نہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے تو پھر اس پالیسی پر اصرار کا کیا جواز؟

 نہ جانے افغانستان کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ ضرورت سے زیادہ ہندوستان کے قریب جانے والی افغان حکومت کو پاکستان کبھی مضبوط کرنا نہیں چاہے گا۔

بدقسمتی سے جس طرح پاکستان کی افغان پالیسی کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے ، بعینہ افغانستان کی پاکستان سے متعلق پالیسی کی منطق کو بھی کوئی ذی عقل سمجھ نہیں سکتا۔ اگر تو مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے قریب جاکر پاکستان کو اپنے من پسند راستے پر لا یا جائے گا تو ایسا کچھ افغانستان کے ہاتھ بھی نہیں آیا۔ پاکستان جو تعاون آج سے چند سال پہلے کررہا تھا، اب وہ بھی نہیں کررہا۔ جس قدرافغانستان تلخی بڑھاتا ہے ، اس قدر پاکستان بھی تلخی میں جواب دے رہا ہے۔

پاکستان کو دور اور ناراض کرکے افغان حکومت نہ تو اپنے ہاں امن لاسکی، طالبان کو زیر کرسکی اور نہ انہیں مفاہمت پر آمادہ کرسکی۔ پہلے صرف طالبان کی مزاحمت تھی ، اب داعش کا بھی اضافہ ہوگیا۔ پہلے صرف پاکستان پر طالبان کی مدد کا الزام تھا لیکن اب روس اور ایران پر بھی یہی الزام لگ رہا ہے ۔

گویا پاکستان کو ناراض اور ہندوستان کوقریب کرکے افغانستان کی جھولی میں بھی کوئی خیر آئی اور نہ آسکتی ہے ۔ اب جب کوئی مقصد حاصل نہیں ہوا اور نہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے تو پھر پاکستان سے متعلق اس پالیسی پر اصرار کا کیا جواز ؟

نہ جانے پاکستان کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ جب تک افغانستان میں ایک مستحکم حکومت قائم نہیں ہوجاتی ، تب تک کوئی بھی افغان حکومت اس بات کو یقینی نہیں بناسکتی کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو اور نہ جانے افغانستان کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آرہی کہ ضرورت سے زیادہ ہندوستان کے قریب جانے والی افغان حکومت کو پاکستان کبھی مضبوط کرنا نہیں چاہے گا۔

چلو مان لیتے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان میں مداخلت کی ہے لیکن یہ مداخلت کیا سوویت یونین اور امریکہ کی مداخلت سے زیادہ ہے ۔

نہ جانے پاکستانی پالیسی ساز کیوں نہیں سمجھتے کہ جب تک افغانستان میں بدامنی ہوگی، پاکستان میں امن نہیں آسکتا اور نہ جانے افغان حکمران کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ پاکستان کو مطمئن کئے بغیر افغانستان میں امن لانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔ نہ جانے کیوں پاکستانی پالیسی ساز سمجھ نہیں رہے ہیں کہ افغانستان کتنا ہی مخالف کیوں نہ بن جائے وہ کبھی بھی ہندوستان جیسا دشمن نہیں بن سکتا اور نہ جانے افغان حکمران کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ ہندوستان کتنا ہی مہربان بن جائے وہ کبھی بھی افغانستان کے لئے پاکستان کا متبادل نہیں بن سکتا ۔

مجھے سمجھ نہیں آتا کہ پاکستانی پالیسی ساز امریکہ کے آگے بھی جھک جاتے اور چین کی ہر بات بھی آنکھیں بند کرکے مان لیتے ہیں لیکن افغانستان کا معاملہ آئے تو جھکنے کی بجائے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا قومی وقار کا تقاضا سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح مجھے سمجھ نہیں آتا کہ افغانی پالیسی ساز امریکہ کی تابعداری کرتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتے ۔ برطانیہ ، جرمنی اور روس کے نخرے بھی اٹھالیتے ہیں ، اپنے مفادات کو ہندوستان کے مفادات پر بھی قربان کرلیتے ہیں لیکن جب پاکستان کا معاملہ آتا ہے تو اس کے سامنے کندھاجھکانا اسے افغان وقار کے منافی نظر آتا ہے ۔

چلو مان لیتے ہیں کہ افغانستان نے پاکستان کے ساتھ بڑی بے وفائیاں کی ہیں لیکن کیا یہ بے وفائیاں امریکہ کی بے وفائیوں سے زیادہ ہیں۔ پاکستان نے تو کبھی بھی امریکہ سے بدلہ لینے کا نہیں سوچا۔ اسی طرح چلو مان لیتے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان میں مداخلت کی ہے لیکن یہ مداخلت کیا سوویت یونین اور امریکہ کی مداخلت سے زیادہ ہے ۔ افغانی دوست کبھی روس اور امریکہ کو کیوں اس طرح جواب نہیں دیتے جس طرح پاکستان کو دیتے ہیں ۔

چلو مان لیتے ہیں کہ افغانوں نے پاکستان کے احسانات کا بدلہ دینے کی بجائے ہندوستان کے ساتھ دوستی بنالی لیکن ایسا تو ایران نے بھی کیا ۔ کیا اس سے پاکستان کو یہ جواز مل جاتا ہے کہ وہ ایران میں اپنی مرضی کی حکومت لانے کی کوشش کرے یا پھر ایرانی حکومت کے مخالفین کو سپورٹ کرے ۔

اسی طرح چلو مان لیتے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان سے متعلق بڑے بڑے بلنڈرز کا ارتکاب کیا لیکن کیا سوویت یونین اور امریکہ کے بلنڈرز معمولی ہیں ۔ آج اگر ایران اور روس طالبان کو اثاثہ سمجھنے لگے ہیں تو کیا وہ پاکستان کی وجہ سے سمجھنے لگے ہیں یا پھر امریکہ کی وجہ سے ۔ پھر افغانستان میں ہر وقت امریکہ پر وہ تبرا کیوں نہیں بھیجا جاتا جو پاکستان پر بھیجا جاتا ہے ۔

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کی سرے سے کوئی افغان پالیسی ہی نہیں ہے اور اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ افغانستان کی بھی پاکستان سے متعلق کوئی پالیسی نہیں ہے ۔ پاکستان کی پالیسی بھی رد عمل پر مبنی ہے اور افغانستان کی پالیسی بھی رد عمل پر مبنی ہے ۔ پاکستان بھی روز روز پالیسی بدلتا ہے اور افغانستان میں بھی شخصیات اور واقعات کے ساتھ پالیسی بدل جاتی ہے ۔

پاکستان میں بھی افغانستان سے متعلق مختلف ادارے اور سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر نہیں ہیں اور افغانستان میں بھی پاکستان سے متعلق ہر سیاسی قوت اور فرد کی الگ الگ پالیسی ہے ۔پاکستان ایک لیڈر یا ادارے کو راضی کرتا ہے تو دوسرا برہم ہوجاتا ہے اور دوسرے کو قریب لاتا ہے تو پہلا ناراض ہوجاتا ہے۔پاکستان کے سیاسی حکمران بھی افغانستان سے متعلق پالیسی میں خودمختار نہیں ہوتے تو اسی طرح افغان حکومت بھی پاکستان سے متعلق پالیسی میں خودمختار نہیں ہوتی بلکہ وہ امریکہ، ہندوستان اور دیگر قوتوں کے دباؤ کے تناظر میں پاکستان سے متعلق پالیسی بناتی ہے ۔

اب المیہ یہ ہے کہ امریکہ دونوں سے یکساں نالاں نظر آتا ہے۔ امریکہ اگر پاکستان پر برہم ہے تو افغانستان کی حکومت سے بھی خوش نہیں ۔

بدقسمتی سے گزشتہ سولہ سالوں کے دوران پاکستان نے افغانستان کے ساتھ خود افغانستان کے تناظر میں تعلقات بنانے اور چلانے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ وہ امریکہ کے آئینے میں افغانستان کو دیکھتا رہا ۔ اسی طرح افغانستان نے بھی پاکستان سے پاکستان کے تناظر میں تعلق نہیں بنایا بلکہ وہ بھی اس حوالے سے امریکہ پر انحصار کرتا رہا۔

پاکستان سوچتا رہا کہ امریکہ راضی ہوگا تو افغانستان خودبخود راضی ہوگا جبکہ افغانستان توقع کرتا رہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ جو بھی رویہ رکھے، امریکہ پاکستان کو اس کی مرضی کے مطابق چلاتا جائے گا۔ پاکستان افغانستان کو شکایت کرنے کی بجائے امریکہ کو اس کی شکایتیں لگاتا رہا جبکہ افغانستان بھی پاکستان سے براہ راست معاملات درست کرنے کی بجائے امریکہ کو ورغلاتا رہا۔

افغانستان پاکستان جیسے قریبی پڑوسی کو زیادہ گھاس اس لئے نہیں ڈال رہا تھا کہ امریکہ جیسی قوت اس کے ساتھ تھی جبکہ پاکستان امریکہ کی افغانستان میں موجودگی اور اس کے ارادوں کے تناظر میں پالیسی بناتا رہا ۔ اب المیہ یہ ہے کہ امریکہ دونوں سے یکساں نالاں نظر آتا ہے۔ امریکہ اگر پاکستان پر برہم ہے تو افغانستان کی حکومت سے بھی خوش نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اگر اپنے پالیسی بیان میں پاکستان کو دھمکیاں دی ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ اس نے افغانستان کی تعمیر نو کے عمل سے بھی اپنے آپ کو بری الذمہ کردیا ہے۔

اب روایتی سفارتی حربوں اور اگر مگر سے کام نہیں چلے گا۔ دونوں ممالک کو کھل کر اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہئے۔

لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس وقت امریکہ خود سب سے بڑھ کر کنفیوژڈ ہوگیا ہے ۔ جس طرح پاکستان کی افغانستان سے متعلق اور افغانستان کی پاکستان سے متعلق پالیسی واضح نہیں ، اسی طرح امریکہ کی بھی پاکستان اور افغانستان سے متعلق پالیسی واضح نہیں ۔ گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق امریکی فوجی اور افغان امور کے ماہر کرسٹوفر کولنڈانے کہا کہ اس وقت واشنگٹن میں اسٹرٹیجک حواس باختگی والی کیفیت ہے ۔ اب امریکہ کے پاس افغانستان کے مستقبل کا کاغذی طور پر بھی کوئی واضح نقشہ نہیں ۔ یہ واضح نہیں کہ وہ طالبان سے متعلق کیا چاہتا ہے ۔ یہ واضح نہیں کہ جانا چاہتا ہے یا رہنا چاہتا ہے ۔

ایک چیز واضح ہے کہ اگر حل کا کوئی راستہ نہ نکلا تو افغانستان ایک ایسی تباہی کی طرف چلا جائے گا کہ خاکم بدہن ہم ماضی کی تمام تباہیوں کو بھول جائیں گے ۔ اس تباہی کا امریکہ کو کوئی براہ راست نقصان نہیں ہوگا۔ اس سے چین ، روس اور ایران بھی بڑی حد تک اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں گے لیکن محفوظ نہیں رکھ سکیں گے تو افغانستان اور پاکستان اپنے آپ کو نہیں رکھ سکیں گے ۔

یوں جتنی ضرورت آج پاکستان اور افغانستان کے ساتھ بیٹھنے کی ہے پہلے کبھی نہیں تھی ۔ اگر پاکستان نے صدق دل کے ساتھ افغان بحران کے حل کی کوشش نہیں کی اور اگر افغانستان نے صدق دل کے ساتھ پاکستان کے خدشات کو رفع کرنے کی کوشش نہیں کی تو نہ صرف یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا بلکہ دونوں کو ناقابل تصور تباہیوں اور رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اب روایتی سفارتی حربوں اور اگر مگر سے کام نہیں چلے گا۔ دونوں ممالک کو کھل کر اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہئے۔ اگر چین درمیان میں ثالث نہیں بلکہ ضامن کے طور پر بیٹھے تو بہت بہتر ہوگا۔امید رکھنی چاہئے کہ دونوں ممالک کے ذمہ دار ہوش کے ناخن لے کر ایک نئے سفر کا آغاز کردیں اور توقع کی جانی چاہئے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا متوقع دورہ کابل اس نئے سفر کا پہلا قدم ثابت ہو۔

یہ کالم 26 ستمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔