Time 08 نومبر ، 2017
بلاگ

مولانا فضل الرحمان اور امریکی ایجنڈا

مولانا فضل الرحمان — آئی این پی فوٹو

مولانا فضل الرحمان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔ وہ بیک وقت آصف علی زرداری صاحب کے بھی رازدان رہتے ہیں اور میاں نوازشریف کے بھی دست راست۔ ان کا ایک ہاتھ اسٹیبلشمنٹ کے دسترخوان میں رہتا ہے اور دوسرا محمود خان اچکزئی کے کاندھے پر۔ ملامحمد عمر کے نام پر سیاست کرتے ہوئے بھی حامد کرزئی کے سرکاری مہمان بنتے ہیں۔ امریکہ مخالف نعروں کے ساتھ سیاست کرکے بھی برطانیہ کے منظورنظر رہتے ہیں۔

یہ ان کا کمال ہے کہ وہ مولانا گل نصیب خان جیسے پکے مولوی اور اکرم خان درانی جیسے خان اور پرویز خٹک مارکہ سیاستدان کو ایک ہی دسترخوان سے کھلاتے رہتے ہیں ۔ کمال ملاحظہ کیجئے کہ ایک طرف علمائے دیوبند جو تقسیم ہند کے حق میں نہ تھے،کے جانشین بنے ہوئے ہیں اور دوسری طرف کشمیر کمیٹی کو مستقل اپنے نام الاٹ کرلیا ہے۔

جس حکومت نے ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم تجویز کی ، اس کا حصہ کوئی اور نہیں بلکہ مولانا محترم خود ہیں۔

حکومت میں شامل ہوتے ہی دین کے محاذ کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل مانگتے ہیں اور دوسری طرف دنیا کو قابو میں رکھنے کے لئے ہاؤوسنگ کی وزارت بھی قابو کرلیتے ہیں۔اب تو وہ اس فن میں اس حد تک ماہر ہوگئے ہیں کہ مجھے بچوں جیسا عزیز بھی رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ حاجی غلام علی اور اسمگلروں کے سرپرست اپنے ایک مولوی کو میرے خلاف سوشل میڈیا میں مہم پر لگا کے رکھتے ہیں۔

میرے ساتھ ان کی دوستی اور شفقت کا یہ عالم ہے کہ فاٹا کے معاملے پر میرے اور ان کے موقف میں بعدالمشرقین کے باوجود گذشتہ روز انہوں نے مزاج پرسی کے لئے فون کیا لیکن جس روز ان کی کال آرہی تھی ، اس روز بھی ان کا سوشل میڈیا میرے خلاف گالم گلوچ سے بھرا پڑا تھا ۔دو نہیں، تین نہیں بلکہ بیک وقت درجنوں کشتیوں پر سوار ہونے کا فن صرف میرے محترم مولانا کو ہی آتا ہے۔

قرآن، حدیث، مسجد اور مدرسے کو سیاست کے لئے استعمال کرنے میں یوں تو سب سیاسی مولوی ماہر ہیں لیکن میرے محترم مولانا اس معاملے میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ وہ بے نظیر بھٹو کے ساتھی بنے تو بھی دلیل اور تاویل قرآن وسنت سے تلاش کرکے لے آئے۔

ایم ایم اے بنا کر درپردہ پرویز مشرف کے ہاتھ مضبوط کرتے رہتے تو بھی اپنی صفائی میں قرآن وسنت سے تاویل پیش کرتے رہے ۔ پھر آصف زرداری کے کرپٹ ترین حکومت کا حصہ رہے تو اسے بھی قرآن وسنت سے حلال ثابت کرتے رہے اور اب میاں نوازشریف کے حکومتی دسترخوان سے مستفید ہورہے ہیں تو بھی قرآن وسنت کے حوالے دیتے رہتے ہیں۔

کمال دیکھ لیجئے کہ جس حکومت نے ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم تجویز کی ، اس کا حصہ کوئی اور نہیں بلکہ مولانا محترم خود ہیں۔ جس وزیر قانون نے بل پیش کیا ، وہ کسی اور کے ساتھ نہیں بلکہ مولانا کے دست راست اکرم درانی کے ساتھ ایک کابینہ میں بیٹھتے ہیں ۔ قومی اسمبلی کی جس کمیٹی نے منظور کیا ، اس میں کسی اور کے نہیں مولانا کی جماعت کے لوگ بیٹھے تھے۔

اب مولانا اپنے ایک وقتی سیاسی مصلحت کے لئے سراج الحق اور مولانا سمیع الحق کو بھی امریکی ایجنٹ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں

گویا جتنے زاہد حامد ذمہ دار ہیں ، اتنے خود مولانا بھی ہیں لیکن کمال ملاحظہ کیجئے کہ جب ایشو بنا تو مولانا محترم اب تقریریں کرتے پھر رہے ہیں کہ ختم نبوت کے معاملے پر بہت بڑی سازش ہورہی تھی ،جسے انہوں نے ناکام بنا دیا ۔ گویا سازش کا بھی خود حصہ اور اس سازش کے خلاف جہاد کے سرخیل بھی خود مولانا۔

حیرت ہے ان سادہ لوحوں پر جو مولانا کا یہ اعلان سن کربھی تالیاں بجاتے یا پگڑیاں ہلاتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جس حکومت نے وہ سازش تیار کی تھی ، خود مولانا اس کا حصہ ہے ۔ مولانا فرمارہے ہیں کہ حلف نامے میں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے اجتماعی گناہ کیا لیکن نہ اس پارلیمنٹ سے نکل رہے ہیں اور انہ اس حکومت سے جس نے وہ قانون منظور کروایا ۔کیا شان ہے شان نبوت پر غیرت کے مظاہرے کا۔ واہ مولانا واہ۔

اب اس روایتی مہارت کا مظاہرہ مولانا محترم فاٹا کے انضمام کے معاملے پر کررہے ہیں ۔ فاٹا کے معاملے پر کمیٹی اسی میاں نوازشریف نے بنائی جن کے مولانا محترم اتحادی اور دست راست ہیں ۔ اس کمیٹی کی ہیت کے خلاف میرے کالم ریکارڈ کا حصہ ہیں لیکن مولانا کا ایک بیان کبھی اس کمیٹی کے خلاف نہیں آیا۔

اس کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ اس نے تمام اسٹیک ہولڈر ز سے مشاورت کی ہے اور اس کے اس دعوے کی مولانا نے یا پھر ان کی جماعت کے کسی رہنما نے کبھی تردید نہیں کی کیونکہ وہ ان کی حکومت کی کمیٹی تھی۔ اس کمیٹی نے جو سفارشات تیار کیں ، انہیں من وعن اس کابینہ نے منظور کیا جس میں مولانا کے دو وزراء بیٹھے ہیں۔

اب مولانا لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں کہ فاٹاکو پختونخوا کے ساتھ مدغم کرنا امریکی ایجنڈا ہے ۔ گویا وہ اس حکومت کو امریکی ایجنٹ باور کرارہے ہیں جس کا وہ خود حصہ ہے۔ بالفاظ دیگر وہ اپنے آپ کو امریکی لابی کا بندہ کہہ رہے ہیں ۔ اب کیا ان لوگوں کی عقل پر ماتم نہیں کرنا چاہئے جو مولانا کے اس دعوے پر تالیاں بجانے سے قبل ان سے یہ نہیں پوچھتے کہ حضرت آپ اس حکومت سے نکلتے کیوں نہیں کہ جو امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔

اسی طرح فاٹا انضمام کے لئے جو سیاسی جماعتیں سب سے زیادہ سرگرم عمل ہیں ان میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (س) سرفہرست ہیں۔ اب مولانا اپنے ایک وقتی سیاسی مصلحت کے لئے سراج الحق اور مولانا سمیع الحق کو بھی امریکی ایجنٹ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن انہیں امریکی ایجنٹ کہہ کر اگلے دن اسی مولانا سمیع الحق کی قدم بوسی کے لئے اکوڑہ خٹک پہنچ گئے اور پھر سراج الحق کی خدمت میں وفد بھیجا کیونکہ اگلے انتخابات کے لئے ایم ایم اے بنانا مقصود ہے۔

اسی طرح وہ ایم ایم اے کی صورت میں فاٹا کے نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کے حکمران رہے۔ لیکن وہ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ فاٹا پر سب سے زیادہ دعویٰ ان کا ہے۔

افسوس کہ مولانا کے ساتھ ایم ایم اے کی بحالی کے لئے کمیٹی بنانے سے قبل مولانا سمیع الحق اور سراج الحق نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ایک طرف تو آپ ہمیں امریکی ایجنٹ کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف ہم سے اتحاد کی بھیک مانگنے آئے ہیں۔ فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ انضمام کو امریکی ایجنڈا کہہ کر مولانا لوگوں کو یہ باور کرارہے ہیں کہ عمران خان بھی امریکی ایجنڈے پر عمل پیر اہیں ، نوازشریف بھی ، آصف زرداری بھی ،اسفندیار ولی خان بھی حتیٰ کہ پاکستانی فوج بھی کیونکہ یہ سب فاٹا اور خیبر پختونخوا کا انضمام چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی فکر ہے تو بس ایک ان کو ہے اور ایک ان کے ہم نشین محمود خان اچکزئی صاحب کو ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ فاٹا اور خیبر پختونخوا کو جن لوگوں نے عملاً ماضی میں ضم کردیا ہے، ان میں خود مولانا سرفہرست ہیں۔ مولانا ڈیرہ اسماعیل خان کے رہنے والے ہیں۔ ان کے والد محترم خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ تھے ، نہ کہ فاٹا کے چیف ایگزیکٹیو تھے۔

اسی طرح وہ ایم ایم اے کی صورت میں فاٹا کے نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کے حکمران رہے۔ لیکن وہ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ فاٹا پر سب سے زیادہ دعویٰ ان کا ہے۔ گویا وہ خود ان دونوں کو ایک سمجھتے ہیں اور اگر الگ الگ ہیں تو پھر تو فاٹا کے مستقبل کے فیصلے کا اختیار ڈیرہ اسماعیل خان کے مولانا کی بجائے باجوڑ کے شہاب الدین خان کے پاس کیوں نہیں ہونا چاہئے۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمان کے سمدھی حاجی غلام علی پشاور میں رہتے ہیں اور مولانا نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہیں ضلع پشاور کا ناظم بھی بنا دیاتھا۔

اس وقت بھی وہ خیبر پختونخوا سے سینیٹر ہیں۔ 2006ء میں جب پہلی مرتبہ فاٹا چیمبر آف کامرس قائم ہوا تو پشاور میں رہائش پذیر حاجی غلا م علی اس کے پہلے صدر بنے۔ تب مولانا کو فاٹا کا الگ تشخص یاد نہیں آیا ۔ تب انہوں نے یہ نصیحت نہیں کی پشاور میں بے تحاشہ جائیدادوں کی ملکیت کی وجہ سے قومی احتساب بیورو کی قید کی ہوا کاٹنے والے حاجی غلام علی کی جگہ کسی قبائلی کو فاٹا چیمبر کا صدر ہونا چاہیے۔

خود مولانا کی جماعت نے اپنی تنظیم میں فاٹا کو الگ حیثیت نہیں دی بلکہ جس طرح اے این پی اور پیپلز پارٹی کی خیبر پختونخوا کی تنظیم فاٹا کی تنظیموں کو دیکھتی ہے اسی طرح مولانا کی فاٹا کی تنظیم جے یو آئی کی صوبائی تنظیم کے ماتحت ہے ۔ گذشتہ روز بھی مولانا نے فاٹا کے عمائدین کے جرگہ کے نام پر اپناجرگہ وزیرستان یا باجوڑ میں نہیں بلکہ پشاور میں پارٹی کے صوبائی مرکز میں طلب کیا ،جس میں قبائلی زعما کم اور ان کی پارٹی کی صوبائی عہدیدار زیادہ تھے۔

اللہ کرے اس تک نوبت نہ آئے کہ قوم کو پتہ چل جائے کہ کون کونسا پولیٹیکل ایجنٹ کس کس کے کہنے پر لگایا گیا ہے

گویا تنظیمی لحاظ سے مولانا صاحب کب سے فاٹا کے بارے میں امریکی ایجنڈے پر عمل کررہے ہیں لیکن اب جب فاٹا کے عوام کو آئینی اور جمہوری حقوق دینے کی بات آگئی تو مولانا کو فاٹا کا الگ تشخص یاد آگیا ۔اور لوگوں کو ورغلارہے ہیں کہ فاٹا کا انضمام امریکی ایجنڈا ہے ۔ جیسے فاٹا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بچے رہتے ہیں اور وہاں سے غریب قبائلیوں کے نہیں بلکہ صدر بش کے بچے آئی ڈی پیز بنے ۔ واہ مولانا واہ۔منطق کوئی آپ سے سیکھے۔

میر ا سینہ رازوں سے بھرا پڑا ہے ۔ اسی طرح کی سینکڑوں مثالی دے سکتا ہوں لیکن مولانا کے ساتھ تعلق اور ان کا احترام آڑے آرہا ہے ۔ اللہ کرے یہ معاملہ جلدی حل ہو تاکہ میں ان رازوں سے پردہ اٹھانے پر مجبور نہ ہوں کہ سینیٹ کے گزشتہ الیکشن میں کیا ہوا اور فاٹا میں سینیٹ کے اگلے انتخابات کے لئے کیا تیاری ہے جس کی وجہ سے بار بار سینیٹ کی نشستوں کا ذکر ہورہا ہے۔

اللہ کرے اس تک نوبت نہ آئے کہ قوم کو پتہ چل جائے کہ کون کونسا پولیٹیکل ایجنٹ کس کس کے کہنے پر لگایا گیا ہے اور فاٹا کے انضمام کی مخالفت کرنے والوں میں سے کس کس کو کس کس اسمگلر کی سرپرستی حاصل ہے۔

اللہ کرے میرے محترم مولانا کا بھرم قائم رہے اور قوم کو اس حقیقی وجہ کا علم نہ ہو کہ جس کی وجہ سے وہ فاٹا کے انضمام کی مخالفت کررہے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔