11 نومبر ، 2017
سید ابولاعلیٰ مودودی کے جانشین سراج الحق صاحب نے مذہب کے نام پر سیاست کرنیوالی خالص سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کا یہ اجلاس کہیں اور نہیں بلکہ منصورہ میں طلب کیا تھا۔
یہ انہوں نے خود طلب نہیں کیا تھا بلکہ درحقیقت دوسری سیاسی اور غیر سیاسی طاقتوں سے اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط بنانے کیلئے مولانا فضل الرحمان نے ایم ایم اے کی بحالی کا خواب دیکھا ہے ۔ مولانا ہی نے سراج الحق سمیت دوسروں کو دانہ ڈالا اور ان کے اشارے پر ہی یہ اجلاس منصورہ میں طلب کیا گیا ۔ تبھی تو وہ سراج الحق سے اعلان کروانے کے بعد سیدھے شہباز شریف کے پاس جاپہنچے اور اب دیگر سیاسی اور غیرسیاسی قوتوں سے سودے بازی کریں گے۔
اگر وہاں ڈیل اچھی طے پائی تو ایم ایم اے بحال نہیں ہوگی اور اگر وہاں سودا طے نہیں پایا تو پھر متبادل کے طور پر یہ فورم ہاتھ میں رہیگا۔ دوسری طرف منصورہ کے اس اجلاس تک سراج الحق صاحب اس خیبر پختونخوا حکومت کا حصہ ہیں جسے مولانا فضل الرحمان مغربی ایجنڈے پر عمل پیرا یہودی طاقتوں کا آلہ کار کہہ رہے ہیں اور جس کے بارے میں مولانا کا دعویٰ ہے کہ وہاں کرپشن دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے۔
دوسری طرف اس اجلاس میں شرکت کے لئے مولانا فضل الرحمان وفاقی وزیر کے پروٹوکول کے ساتھ آئے تھے اور یہ پروٹوکول انہیں اس نوازشریف حکومت کا حصہ ہونے کے ناطے دیا جاتا ہے ، جس کیخلاف سراج الحق صاحب عدالت میں گئے تھے اور جس کیخلاف مبینہ طور پر تحریک چلارہے ہیں۔
اسی طرح یہاں پر اکرم خان درانی بھی شاہد خاقان عباسی کابینہ کے وزیر کی حیثیت سے سرکاری گاڑی میں تشریف لے گئے تھے ۔ سینیٹر ساجد میر بھی یہاں پر نظرآئے جو اس میاں نوازشریف کی برکت سے سینیٹر ہیں ،جنہیں سراج الحق کی کوششوں سے نااہل قرار دیا گیا۔
یہاں کھڑے ہوکر نہ تو سراج الحق نے وفاقی حکومت پر کوئی اعتراض کیا اور نہ مولانا نے خیبر پختونخوا کی حکومت پر ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ مستقبل کی سیاسی بندربانٹ کے لئے اب ایک ہونا ہے اور سب نے مل کر دین کے پاک نام کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا ہے ۔ بات ہوئی تو صرف ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کے عمل کی ہوئی لیکن سراج الحق، پیغمبر ﷺ کے پاک نام پر اس غیرت کا مظاہرہ بھی نہ کرسکے کہ یہ حقیقت زبان پر لاتے کہ جس حکومت نے وہ کام کیا تھا ، اس کا حصہ یہ مولانا فضل الرحمان ، اکرم درانی اور سینیٹر ساجد میر بھی ہیں اور اس معاملے پر اگر زاہد حامد قابل مذمت ہیں ، تو یہ لوگ بھی ہیں ۔
بہر حال متحدہ مجلس عمل کی بحالی پر اتفاق اس حال میں ہوا ہے کہ مولانا فضل الرحمان بدستور میاں نوازشریف کی حکومت کا حصہ ہیں جبکہ سراج الحق صاحب عمران خان کی حکومت کا۔ مولانا کا ایک ہاتھ بدستور شریفوں کے حکومتی دسترخوان میں ہوگا اور دوسرا سراج الحق کے کاندھے پر رکھ دیا ہے جبکہ سراج الحق کا ایک ہاتھ بدستور پرویز خٹک کے حکومتی دسترخوان میں ہوگا اور دوسرا مولانا کے کاندھے پر رکھ دیا ہے۔
اکرم درانی بدستور خاقان عباسی کابینہ کا حصہ ہوں گے لیکن ساتھ ہی ساتھ کبھی کبھی سراج الحق کی پشت پر کھڑے نظر آئیں گے جبکہ جماعت اسلامی کے عنایت اللہ اور مظفر سید بدستور پرویز خٹک کابینہ کا حصہ رہیں گے لیکن ساتھ ہی ساتھ مولانا فضل الرحمان زندہ باد کا نعرہ بھی لگاتے رہیں گے ۔ اب بھی دونوں کی اقتدار پرستی کا یہ عالم ہے کہ چند ماہ کیلئے بھی اقتدار چھوڑنا نہیں چاہتے بلکہ ایک ایک ماہ مزید اپنی اپنی حکومتوں کے مزے لیکر دسمبر میں اپنی اپنی حکومتیں چھوڑنے کا فیصلہ کیا جائے گا تاکہ اگلے انتخابات میں پھر مذہب کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاسکے ۔
تاویل سازی میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کا کوئی ثانی نہیں ۔ مولانا کے پاس بھی تاویلات کی کمی نہیں اور سراج الحق صاحب بھی دور جوانی سے یہی کام کررہے ہیں ۔ وہ دونوں اب بھی قرآن و سنت سے حوالے دیکر پانچ سال تک میاں نوازشریف اور عمران خان کے ساتھ اپنے اپنے سفر کیلئے ہزاروں تاویلات تلاش کرلیں گے۔ اور اب جب دونوں مل کر مذہب کے پاک نام کو سیاسی مقاصد کیلئے بھرپور طریقے سے استعمال کریں گے تو اس کے لئے بھی ہزاروں تاویلات تلاش کرلیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ چند عملی تضادات کی وضاحت یہ دونوں حضرات کیسے کریں گے۔
مثلاً کیا سراج الحق صاحب اس کے بعد بھی موجودہ وفاقی حکومت کو کرپٹ حکومت کہیں گے اور اگر کہیں گے تو کس قاعدے اور اصول کے تحت وہ اس کرپٹ حکومت کے حصے یعنی جے یو آئی کو کرپشن سے پاک قرار دیں گے ۔اسی طرح عدلیہ اور نوازشریف کی جنگ میں مولانا فضل الرحمان صاحب ، میاں نوازشریف کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں۔
اب کیا سراج الحق صاحب اس جنگ میں خود نوازشریف کی صف میں آجائیں گے یا پھر مولانا اپنا کیمپ بدل لیں گے اور اگر نہیں آتے تو پھر عدلیہ سے جنگ کرنے والی قوت کے ساتھ وہ کیسے ہاتھ ملارہے ہیں؟۔
سراج الحق صاحب فاٹا اور خیبر پختونخوا کے عوام کے سامنے دعویٰ کررہے تھے کہ وہ دونوں اکائیوں کے انضمام کے لئے آخری حدوں تک جائیں گے ۔ گزشتہ روز فاٹا یوتھ جرگہ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے یہ کریڈٹ لینے کی کوشش کی کہ فاٹا کے انضمام کی تحریک بنیادی طور پر جماعت اسلامی نے شروع کی اور ساتھ ہی اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ اس کی راہ میں اصل رکاوٹ مولانا فضل الرحمان ہیں۔
اب کیا مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہاتھ ملانے سے قبل انہوں نے ان سے یہ اعلان کروا دیا کہ وہ فاٹا کے لوگوں کے ساتھ مزید یہ ظلم روا نہیں رکھیں گے اور اگر نہیں تو پھر کس اخلاقی اصول کے تحت انہوں نے ان کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کرلیا ۔ اب جب اس معاملے کا تصفیہ نہیں ہوا ہے اور مولانا بدستور اپنے موقف پر قائم ہیں تو ان کے ہاتھ مضبوط کرنا کیا فاٹا اور خیبرپختونخوا کے عوام کے ساتھ بے وفائی اور دھوکہ نہیں۔
ایسے عالم میں جبکہ فاٹا اور پختونخوا کے ادغام کا معاملہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگیا ہے اور خود اس تحریک میں جماعت اسلامی آگے آگے ہے ، اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کو سیاسی تنہائی سے نکالنے پر قبائلی عوام سراج الحق کو کیسے معاف کریں گے؟ ۔ اب سراج الحق صاحب کو قوم کو یہ جواب دینا ہوگا کہ ابھی تک فاٹا کے انضمام کے حق میں ان کے بیانات سیاسی ناٹک تھے یا پھر اب دین کے نام پر مولانا فضل الرحمان سے اتحاد سیاسی ناٹک ہے ۔
مولانا فضل الرحمان جواب اور دلیل تراشنے کے ماہر ہیں اور سراج الحق نے پوری زندگی قوت بیان کو بڑھانے کی تربیت حاصل کی ہے ۔ ہم اسی طرح چیختے چلاتے رہیں گے اور انہوں نے کرنا وہی ہے جو ان دونوں کی ذات اور ان کی جماعتوں کے وقتی فائدے کا موجب بنے لیکن ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے بہرحال انہیں ہمیں بھی یہ حق دینا ہوگا کہ آج کے بعد ہم انہیں دینی نہیں بلکہ خالص سیاسی شخصیات پکاریں۔
جماعت اسلامی کے دوست ناراض نہ ہوں لیکن آج کے بعد میرے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ ان کی جماعت کو دینی جماعت کہہ سکوں ۔ اس کی قیادت اپنے فیصلوں میں آزاد ہے اور ہم آزاد ہیں کہ آج کے بعد جماعت اسلامی کو اسی طرح سیاسی جماعت سمجھ لیں جس طرح کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور اے این پی وغیرہ ہیں ۔ مولانا تو ماہر ہیں اور ہر اتحاد سے اپنا فائدہ نکال سکتے ہیں۔
انہوں نے بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کی ہمرکابی سے بھی فائدہ حاصل کیا، ایم اے اے سے بھی خاطر خواہ سمیٹا اور اب نوازشریف کی ہمراہی سے بھی لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جماعت اسلامی کو ایم ایم اے سے بھی نقصان ہوا اور تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد سے بھی ۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ لاہور جیسے شہر کے قومی اسمبلی کے حلقے سے اب اسے چند سو ووٹ ملتے ہیں۔
مجھے خدشہ نہیں بلکہ یقین ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مجوزہ اتحاد جماعت اسلامی کی سیاست کےتابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ہم جیسے لوگوں نے محترم سراج الحق صاحب سے بڑی توقعات وابستہ کی تھیں کیونکہ وہ ایک دیانتدار اور بے انتہا محنتی انسان ہیں ۔ توقعات تو پوری نہیں ہورہی ہیںلیکن بعض اوقات یہ وہم بھی ذہن میں جگہ بنالیتا ہے کہ کہیں میرے محترم بھائی سراج الحق جماعت اسلامی کے گورباچوف ثابت نہ ہوں۔
یہ کالم 11 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔