Time 13 نومبر ، 2017
بلاگ

جیسا کروگے ویسا بھروگے

— فوٹو:فائل

برے اعمال کا برا نتیجہ، برے اعمال کا ایک اور برا نتیجہ تیزابی دھند کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

سائنسدانوں نے اس تیزابی دھند کو اسموگ کا نام دیا ہے۔ یہ نام اسموک (دھواں) اور فوگ (دھند) کو ملا کر بنایا گیا ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ پاکستان میں سب سے ز یادہ اسموگ پنجاب میں پھیلی ہوئی ہے حالانکہ پنجاب کو پاکستان کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبہ کہا جاتا ہے لیکن آج کل اسموگ اتنی زیادہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو بھی بہت کچھ نظر نہیں آرہا اور حدنگاہ میں کمی کے باعث ان کی قوت فیصلہ شدید متاثر ہوئی ہے۔

 کچھ ایسا ہی معاملہ کراچی میں ہوا ہے اور کراچی میں اسموک اور فوگ مل کر اسموگ تو نہ بن پایا البتہ سیاسی روگ بن گیا، اس سیاسی روگ نے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال سے ان کی قوت فیصلہ چھین لی اور وہ ایک دوسرے کو جلی کٹی سنارہے ہیں۔

دونوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں آئندہ انتخابات ایک نام اور ایک نشان کے تحت لڑنے کا اعلان کیا لیکن چوبیس گھنٹے کے اندر اندر دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئے۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ تاثر دیا کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر مصطفیٰ کمال کے ساتھ بیٹھنے کا فیصلہ کیا جب کہ مصطفیٰ کمال نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر صاف صاف کہا کہ فاروق ستار کی خواہش پر اسٹیبلشمنٹ نے ہماری ملاقات کا اہتمام کیا تھا، مصطفیٰ کمال نے یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر فاروق ستار پچھلے سال ملک دشمنی کے الزام میں گرفتار ہوئے ایک رات انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے پاس گزاری اور صبح کو پارٹی کے سربراہ بن کر رہا ہوگئے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں کون سا سیاستدان اور صحافی ہے جو اسٹیبلشمنٹ سے بات نہیں کرتا؟ اب اگر مجھے اپنے لاپتہ ساتھیوں کو بازیاب کرانا ہے تو میں اسٹیبلشمنٹ سے بات نہ کروں تو کس سے کروں؟ مصطفیٰ کمال کی ان باتوں نے سیاست میں تہلکہ مچادیا ہے اور ٹی وی چینلز سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مصطفیٰ کمال کے دعوؤں کو سر پر اٹھائے بھاگ رہے ہیں۔

 ان دعوؤں کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مصطفیٰ کمال مارچ 2016ء میں بیرون ملک سے واپس آئے اور انہوں نے نئی پارٹی کا اعلان کیا تو سب جانتے تھے کہ ان کے پیچھے کون ہے؟ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی واشنگ مشین قرار دیا گیا جس میں گندے کپڑوں کو دھو دھو کر صاف کیا جارہا تھا۔

ایک ڈیڑھ سال سے مصطفیٰ کمال کے اعمال بول رہے تھے اب ان کی زبان بول رہی ہے لیکن ذرا اپنے دل سے پوچھئے کیا مصطفیٰ کمال نے کوئی نئی بات کردی ہے؟ مصطفیٰ کمال کے دعوؤں پر وہ خواتین و حضرات فاتحانہ بیانات دے رہے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے اپنے ہاتھ کی پیداوار ہیں۔

آج ڈاکٹر فاروق ستار اسٹیبلشمنٹ سے بڑے شاکی دکھائی دیتے ہیں لیکن کچھ عرصہ پہلے تک وہ اسٹیبلشمنٹ اور الطاف حسین کے درمیان رابطہ کار کے فرائض سرانجام دیا کرتے تھے۔

پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایک تاریخی حقیقت ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت سے پاکستان کو ہمیشہ نقصان ہوا۔

خود اسٹیبلشمنٹ نے بھی ہمیشہ نقصان اٹھایا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اشاروں کنایوں میں بیان بازی کررہے ہیں انہوں نے خود اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں ملوث کیا،کبھی خود دباؤ میں آئے کبھی اپنے سیاسی حریفوں کو دباؤ میں لانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لیا۔

میں لمبے چوڑے تاریخی حوالے نہیں دوں گا، سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی کتاب ’ان دی لائن آف فائر‘ دوبارہ پڑھنے کی زحمت گوارا کرلیں جس میں انہوں نے اس کتاب کے 18 ویں باب میں صاف صاف لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز کے مشورے پر 20اگست 2002ء کو مسلم لیگ(ق) بنائی، آگے چل کر انہوں نے پی پی پی پیٹریاٹ کا بھی ذکر کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کے دور میں مسلم لیگ(ق) نے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر سندھ میں مخلوط حکومت بنائی جس کے بعد کراچی میں امن و استحکام کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

یہ وہ دور تھا جب ایم کیو ایم کے بانی نے نئی دہلی جاکر پاکستان کے خلاف تقریر کرڈالی اور اس خاکسار نے جیو ٹی وی پر کپیٹل ٹاک میں الطاف حسین کی پاکستان دشمن تقریر کا ایک ٹکڑا نشر کیا اور پروگرام میں موجود عمران خان نے الطاف حسین کی مذمت کی جسارت کی تو بابر غوری نے عمران خان کے کردار پر حملے شروع کر دئیے۔

اگلے دن کراچی کے مختلف علاقوں میں جیو ٹی وی کو بند کردیا گیا اور ہم شکایت لے کر مشرف صاحب کے پاس گئے تو انہوں نے الٹا ہمیں غدّار قرار دے ڈالا، پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا سب پر تنقید کرسکتا تھا لیکن الطاف حسین کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔

2008ء میں آصف علی زرداری صدر بنے تو ایم کیو ایم ان کی حکومت میں بھی شامل ہوگئی اور الیکٹرانک میڈیا پر ایم کیو ایم کا کنٹرول برقرار رہا۔

الطاف حسین دو دو گھنٹے ٹیلی فون پر تقریریں کرتے تھے اور ٹی وی چینلز ان تقریروں کو لائیو دکھانے پر مجبور ہوتے تھے اور اس طرح 2013ء میں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے۔

 ایم کیو ایم حکومت میں شامل نہیں تھی لیکن الیکٹرانک میڈیا پر الطاف حسین کا’ٹیرر‘ برقرار رہا، تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے ستمبر 2013ء میں کراچی میں آپریشن شروع ہونے کے بعد بھی الطاف حسین کا ’ٹیرر‘ ختم نہ ہوا۔

یہ ’ٹیرر‘ اس وقت ختم ہوا جب الطاف حسین نے کھلم کھلا کچھ ریاستی اداروں کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو عدالتی احکامات کے ذریعہ ان کی تقاریر اور بیانات پر پابندی لگ گئی اور یوں الیکٹرانک میڈیا نے کچھ سکھ کا سانس لیا۔

کراچی میں آپریشن شروع ہونے کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے وفاق میں مسلم لیگ(ن) سے کئی شکایتیں کیں لیکن مسلم لیگ(ن) نے کسی شکایت پر توجہ نہ دی اور کراچی آپریشن کا کریڈٹ جنرل راحیل شریف لے اڑے۔

شمالی وزیرستان میں آپریشن کا کریڈٹ بھی انہوں نے لے لیا حالانکہ یہ آپریشن قومی اتفاق رائے سے شروع ہوا تھا۔ 2013ء کے بعد نواز شریف حکومت نے سندھ کے معاملات چلانے کے لئے اپیکس کمیٹی کا پلیٹ فارم متعارف کرایا اور اپیکس کمیٹی کے کچھ اجلاسوں میں نواز شریف اور راحیل شریف بھی شریک ہوا کرتے تھے۔

اپیکس کمیٹی کے نیچے بھی کئی کمیٹیاں بنادیں گئیں اور سیاستدان آپس میں لڑتے رہے اسٹیبلشمنٹ اپنا کام کرتی رہی، سیاستدانوں نے فوجی عدالتیں بنادیں لیکن پیپلز پارٹی کی شکایات ختم نہ ہوئیں اور پھر 2015ء میں آصف زرداری نے ایک متنازع تقریر کردی تو نواز شریف سہم گئے۔

انہوں نے زرداری صاحب سے تمام روابط منقطع کردئیے اور مشاہد اللہ خان نے بی بی سی کو ایک انٹرویو دیا تو راحیل شریف ناراض ہوگئے، ناراضی دور کرنے کیلئے مشاہد اللہ خان کو کابینہ سے نکال دیا گیا۔

پی ایس پی بھی راحیل شریف کے زمانے میں بنی اور نواز شریف خاموش تماشائی بنے رہے، نواز شریف اس وقت بولے جب سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا دے، ابھی تک مسلم لیگ(ن) میں کوئی مصطفیٰ کمال پیدا نہیں ہوا لیکن مصطفیٰ کمال کو اسٹیبلشمنٹ نے نہیں الطاف حسین نے بنایا تھا۔

الطاف حسین اور نواز شریف کو کس نے بنایا مجھے بتانے کی ضرورت نہیں، اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت ایک برا عمل ہے۔

برے عمل کے برے نتائج پیدا ہوتے ہیں اور ہم سب کو جو بھی کرنا ہے آئین کے اندر رہ کر کرنا ہے۔

یہ کالم 13 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔