15 نومبر ، 2017
سابق صدر پرویز مشرف نے گزشتہ چند دنوں میں پاکستانی سیاست پر متضاد بیانات دیئے۔ خصوصاً مہاجروں اور ایم کیوایم کی سیاست پروہ بہت بولے۔ ایم کیو ایم کے لئے ان کی ناپسندیدگی انہیں قبول کرنے سے انکار کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔حتیٰ کہ پاکستان سرزمین پارٹی(پی ایس پی) نے بھی ان سے فاصلہ رکھا۔
لیکن کیا یہ پرویز مشرف نہیں تھے۔؟ جنہوں نے ایم کیوا یم کو نئی زندگی بخشی۔ اپنے حالیہ بیانات اورانٹرویوز میں انہوں نے بھی ایم کیو ایم سے فاصلہ اختیار کرنے کی سعی کی اوراسے ایک ناقص برانڈ تک قرار دے ڈالا لیکن سندھ کے شہری علاقوں میں 2002 سے 2008 تک انہوں نے تین نکاتی سمجھوتے کی بنیاد پر ایم کیو ایم کو کھلی چھوٹ دے رکھی۔
یہ سمجھوتہ ان کی سبکدوشی تک قائم رہا۔ 2008 میں جب پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو اس نے ایم کیو ایم کے اتحادی ہونے کے باوجود یہ سمجھوتہ ختم کرڈالا۔ سمجھوتہ کیا تھا۔ جس نے ایم کیو ایم کو قوت بخشی اور پیپلزپارٹی نے اسے کیوں ختم کرڈالا؟
تین نکات میں اول یہ تھا کہ ایم کیو ایم کے گورنر کو شہری سندھ میں پولیس سے متعلق معاملا ت سے نمٹنے کے غیر سرکاری طورپر اختیارات ہوں گے۔ دوم، ایم کیو ایم حقیقی پرپابندی اور اس کی قیادت پابند سلاسل یا جلاوطن ہوگی اور سوم، کراچی اورحیدر آباد کے ناظمین کو مکمل مالی اختیارات اوراس حوالے سے تعاون حاصل ہو گا۔
اپنے تمام تر عملی مقاصد کے تحت سندھ کو انتظامی طورپر تقسیم کردیا گیا۔ ریکارڈ سے ظاہر ہے شہری سندھ سے متعلق اکثر اجلاس گورنر ہاؤس میں ہوئے ،گوکہ فائلوں پردستخط وزیراعلیٰ کے ہوتے تھے لیکن انہیں ہدایت تھی کہ گورنر ہاؤس سے آنے والی فائلوں پر دستخط سے انکار نہ کرنا۔
آپریشن کرکے ایم کیو ایم حقیقی کے ہیڈ کوارٹر اور تمام دفاتر مسمار کر دیئے گئے اور قیادت کو جیلوں میں ڈال دیاگیا۔ پرویز مشرف کے بلدیاتی آرڈیننس کو سوائے پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن) کے سب نے بہترین تصور کیا۔
نچلی ترین سطح پر مالیاتی اختیارات منتقل ہوئے۔ لہٰذا جب سابق آمر سبکدوش ہوئے اور 2008ء میں پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی تو اس نے نہ صرف گورنر کے اختیارات کم کئے بلکہ ایم کیوا یم حقیقی کی واپسی کو بھی یقینی بنایا۔ دوسال کے اندر اس نے اس وقت کے صوبائی وزیر دخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو ایم کیو ایم کے عسکریت پسندوں کو کچلنے کی اجازت دے دی۔
پہلی بار پیپلز پارٹی نے عذیر بلوچ کے گروہ کو استعمال اور ایم کیو ایم کے خلاف اسے مسلح کیا۔ جس کا نتیجہ کراچی میں قتل و غارتگری کی صورت نکلا۔ لیکن 2002 سے 2008 تک ایم کیو ایم نے سسٹم سے بھرپور استفادہ کیا۔ اس دوران ناظم شہر مصطفیٰ کمال نے جو کچھ کیا وہ پرویزمشرف کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ کیا۔
ایم کیو ایم نے جوکچھ فائدے اٹھائے اس کی بنیاد پر وہ12مئی2007کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کو کراچی میں داخلے سے روکنے کیلئے مدد مانگی گئی تو ایم کیو ایم انکار نہ کرسکی۔ لیکن ایم کیو ایم رائے کے اختلاف کے باعث تقسیم بھی ہوئی۔ اس سانحے کی آزادانہ تحقیقات ہوتو اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی سامنے آئے گا۔
سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور سندھ انتظامیہ کی ریلی کو اجازت دیئے جانے کی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ معتبر ترین ذرائع نے اس میں ایک انتہائی سینئر سابق انٹیلی جنس سربراہ کے کردار کا بھی ذکر کیا ہے۔ لہٰذا آج اگر پرویزمشرف ایم کیو ایم کو ناقص یاخراب برانڈ قرار دیتے ہیں تو انہیں اس میں اپنے کردار کابھی اعتراف کرنا چاہئے۔
اکتوبر 1999 میں پرویز مشرف کے برسراقتدار میں آنے کے بعد 2001 میں ان کے ریفرنڈم تک ایم کیوا یم نے ان کی حمایت نہیں کی۔ جب پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دینے کاعزم کیا تو سیاسی حمایت کے لئے لندن میں ایم کیو ایم کی قیادت سے رابطہ کیا گیا۔ ایم کیو ایم کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب وہ قومی اسمبلی کی 6 نشستیں متحدہ مجلس عمل کے ہاتھوں کھو بیٹھی تاہم 2002کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم حکومت بنانے کی مضبوط پوزیشن میں تھے۔
لیکن پرویز مشرف سے سمجھوتے کے بعد ایم کیو ایم نے مذکورہ معاہدے کی بنیاد پر ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کے حق میں اپنا مطالبہ ترک کردیا۔ لہٰذا ناظم مصطفیٰ کمال اور گورنر عشرت العباد دونوں کو پرویز مشرف کی جانب سے زبردست پشت پناہی حاصل ہوئی۔
1997ء کے انتخابات کے بعد ایم کیوا یم وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی کی مخلوط سندھ حکومت میں شامل ہوئی لیکن سابق گورنر حکیم محمد سعید کے قتل کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سندھ میں گورنر راج لگادیا اور فوجی عدالتیں قائم کردی گئیں پھر ایم کیو ایم نے اپنی حمایت واپس لے لی۔
پرویز مشرف آج جو کچھ ایم کیو ایم کے خلاف کہہ رہے ہیں، اس سے قطع نظر انہو نے ہی سب سے پہلے ایم کیو ایم سے رابطہ کیا۔ جب 2001 کے ریفرنڈم میں ایم کیو ایم نے پرویز مشرف کی حمایت نہیں کی۔ 2002ء میں متحد ہ مجلس عمل کیسے بنی اور کس طرح سے بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو باہر رکھا گیا۔ د و نئے گروپس پیپلزپارٹی پیٹریاٹ اورمسلم لیگ (ق) تشکیل دیئے گئے۔ جو اب ملک کی بدقسمت سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔
ماضی قریب سے لندن کی ایم کیو ایم کونفی کرکے ایم کیو ایم کے دھڑوں کو یکجا کئے جانے کی قیاس آرائیاں جاری تھیں اور پرویز مشرف کو اس کا سربراہ بنا دیا جائے۔ ایم کیوایم پاکستان اور پی ا یس پی دونوں ہی پرویز مشرف کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے لیکن انہیں اپنا رہنما قبول کرنے کیلئے بھی آمادہ نہ تھے۔
پرویزمشرف کی تلخی کی وجہ بھی انہیں رہنما تسلیم کرنے سے انکار ہوسکتا ہے لیکن پرویز مشرف نے یہ کہا’’ایم کیو ایم کا نام بدنام ہو گیا ہے‘‘ تو یہ بہت سوں کو حیران کر گیا جو جانتے ہیں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ا نہوں نے ایم کیو ایم کو کس طرح استعمال کیا تھا۔2002سے 2007کے دوران جس طرح ایم کیو ایم چلائی اور گنجائش نکالی گئی ،اس کو سہولتیں فراہم کی گئیں وہ اسی تین نکاتی سودے بازی کا نتیجہ تھا۔ لہٰذا آج ایم کیو ایم خراب اوربیمار ہے تو وجہ وہ خود رہے، اس میں ان کا کردار بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
نوٹ: یہ مواد 15 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا