ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کا مخمصہ

ایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان سرزمین پارٹی میں ملاپ اب بھی ممکن ہے اگر دونوں مشترک نکات پر متفق اور ذاتی اَنا سے برتر ہو کر سوچیں۔ اس بار اگر موقع دیا جائے تو تیسرے فریق کی ثالثی کے لئے گنجائش نکالی جائے۔ مذاکرات میں ایک دوسرے کو باور کرانے کے لئے ان کے پاس دلائل ہیں۔

اس وقت جس بات پر عدم اتفاق پایا جاتا ہے وہ پارٹی کے نام کا تنازع ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان اپنے اس نام کو بحال رکھنا چاہتی ہے۔ پی ایس پی اپنا نام ترک کرنے پر آمادہ تو ہے لیکن اسے ایم کیو ایم کا نام برداشت نہیں۔ جسے وہ الطاف حسین کا ورثہ سمجھتی ہے۔ اب آگے بڑھنے کا راستہ اور ان کے درمیان مذاکرات کی اندرونی کہانی کیا ہے؟ گزشتہ 8 ماہ کے دوران وہ آپس میں درجنوں بار ملے اور ان کے درمیان گھنٹوں تبادلہ خیال بھی ہوا۔

ایک مرحلہ پر پی ایس پی کے صدر انیس قائم خانی اپنا منصب چھوڑنے پر آمادہ بھی ہوگئے، بشرطیکہ ڈاکٹر فاروق ستارپارٹی کے نئے نام پر راضی ہو جاتے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تیسرے فریق کو بات چیت کے عمل میں ملوث کرناثالثی سے بڑھ کر ہی ہوتا۔ ان کے زیادہ تر اجلاسوں میں ایک یا زیادہ ’’غیرمتعلقین‘‘ موجود ہی رہے۔

اب اس میں تیسرے فریق یا اسٹیبلشمنٹ کی اس میں دلچسپی یا مفاد کیا ہے؟ جو ایم کیو ایم لندن یا اس کے بانی کے بغیر سندھ کے شہروں علاقوں میں متبادل سیاسی قوت کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ دونوں پارٹیوں میں سمجھوتہ نہ ہونے کے مضمرات سے بھی واقف ہیں۔ ’’ثالث‘‘ اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ اس تقسیم اور ممکنہ منقسم مینڈیٹ کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ وہ اس ممکنہ صورتحال سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ جو خلاء پیدا ہوگا، اسے پُر کرنے کی صلاحیت تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔

جس کی کراچی سے قومی اسمبلی کی 5 یا 6 نشستوں پر نظر ہے۔ اس کے علاوہ حیدرآباد اور سکھر سے دو یا تین نشستیں بھی ان کے حصے میں آسکتی ہیں، لیکن وہ پیپلزپارٹی کے لئے اتنی گنجائش بھی چھوڑنا نہیں چاہتے۔ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی دونوں پارٹیوں کے رہنماء ساتھ پلے بڑے ہوئے اور ایک دوسرے کو خوب جانتے ہیں۔

ایک دوسرے کی خامیوں اور خوبیوں کا بھی انہیں علم ہے ۔ ان کی اکثر صفات مشترک ہیں۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ملنے اور بات کرنے سے معلوم ہوا کہ دونوں نے مہاجر سیاست کو ترک نہیں کیا لیکن ایم کیو ایم پاکستان اپنے اسی نام کے ساتھ اصلاحات کی خواہاں اور نئی حکمت عملی کے تحت ایم کیو ایم لندن کا راستہ روکنا چاہتی ہے۔ دوسری جانب پی ایس پی کے رہنما سمجھتے ہیں کہ اسی نام سے سیاست اور جھنڈے سے شناخت کےمسائل پیدا ہوں گے۔ وہ ایک دوسرے کے حربوں سے اس قدر واقف ہیں کہ اگلے اقدام کا پیشگی ہی اندازہ لگا لیتے ہیں۔

مثال کے طور پر فاروق ستار اور انیس قائم خانی نے تین دہائیوں سے مل کر کام کیا اور یہی بات دیگر کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ مصطفیٰ کمال، رضا ہارون، انیس ایڈووکیٹ ایک طرف، دوسری جانب کشور زہرہ، کنور نوید یا شبیر احمد قائم خانی، بزرگوں میں سردار احمد اور آفتاب شیخ آپس میں خوب شناسا ہیں۔ 

دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ یہ بات بھی خوب جانتے ہیں کہ 2007ء سے 2013ء کے درمیان کیا کچھ غلط ہوا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران وہ ایک دوسرے سے اس قدر قریب رہے کہ فاروق ستار، مصطفیٰ کمال، عشرت العباد اور انیس قائم خانی ساتھ لندن گئے تا کہ پاکستان میں ایم کیو ایم کے لئے مسائل پیدا کرنے والے خطابات سے بانی کو روکا جا سکے۔

مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے ایم کیو ایم چھوڑنے کے بعد اسے چیلنج کرنے کے لئے ڈھائی سال انتظار کیا۔ 22 اگست کے بعد ایم کیو ایم کو ایک اور تقسیم کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ جس سے اس تنظیم کے بانی کا نام خارج کر دیا گیا۔

گزشتہ دنوں مصطفیٰ کمال نے یہ کہہ کر دھماکہ کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان رینجرز ہیڈکوارٹرز میں بنی۔ڈائریکٹر جنرل رینجرز نے اس سے انکار کیا۔ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے درمیان بات چیت کا عمل سات یا آٹھ ماہ قبل فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال میں بالواسطہ رابطوں سے اسٹیبلشمنٹ کی ثالثی میں شروع ہوا۔

مشترکہ پریس کانفرنس کے 24 گھنٹوں کے اندر ہی دونوں جماعتوں کا اجماع بکھر کر رہ گیا۔ دونوں نے ہی مذاکرات میں تیسرے فریق کی حیثیت سے اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا اعتراف کرکے اسے شرمندہ کر دیا۔ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی اب بھی مذاکراتی عمل کے امکان کو رد نہیں کرتے لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ خفت کے بعد تیسرا فریق اس میں ملوث ہوتا ہے یا نہیں۔ ثالثی اور مذاکرات میں اسٹیبلشمنٹ کی دلچسپی کا مقصد دوبارہ سے متشدد سیاست کا راستہ روکنا ہو۔

ایک مؤقف ڈائریکٹر جنرل رینجرز کا بھی سامنے آیاہے کہ رینجرز کا فریقین کے درمیان مذاکرات میں کوئی کردار نہ تھا۔ تاہم انہوں نے تصدیق کی کہ بات چیت ساتھ آٹھ ماہ سے جاری تھی جس میں اسٹیبلشمنٹ ہی سہولت کار تھی۔ وہ آئندہ انتخابات میں ایم کیو ایم لندن کی واپسی نہیں چاہتی۔ گزشتہ تین برسوں سے ایم کیو ایم لندن کی پاکستان میں تمام تر سرگرمیوں کو روکا گیا۔

22 اگست کو ایم کیو ایم بانی کے پاکستان دُشمن خطاب کے بعد پابندیاں لگیں۔ ہیڈکوارٹر نائن زیرو، خورشید بیگم میموریل ہال، ایم پی اے ہاسٹل اور حتیٰ کہ جناح گراؤنڈ سیل کر دیئے گئے۔ رینجرز نے فاروق ستار کو گرفتار کیا پھر چھوڑا تو انہوں نے بانی متحدہ سے ناطہ توڑ ا اور یقین دلایا کہ لندن سے دوبارہ تعلق قائم نہیں ہوگا اور ایم کیو ایم پاکستان نئی پارٹی کی حیثیت سے کام کرے گی۔ تاہم انہوں نے رینجرز اور انٹلی جنس اداروں سے کہا کہ انہیں گنجائش اور مجتمع ہونے کا موقع دیا اور ہر کسی کو ایم کیو ایم لندن کا وفادار نہ سمجھا جائے۔

فاروق ستار نے انیس قائم خانی سے پہلی بار رابطہ کرکے پی ایس پی کو ایم کیو ایم پاکستان میں ضم ہو جانے کے لئے کہا۔ اسٹیبلشمنٹ کو یقین دلانے کے لئے ایم کیو ایم پاکستان دوبار ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف قومی اور صوبائی اسمبلی میں قراردادیں لے کر آئی۔

پی ایس پی نے ایم کیو ایم کے قید، جلاوطن یا لاپتہ کارکنوں یا عسکریت پسندوں کے لئے عام معافی کےحوالےسے مشترکہ جدوجہد کی بھی تجویز دی تھی۔ پی ایس پی کو مہاجر عسکریت پسندوں کے کیسز سے نمٹنے میں اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی پر بھی تشویش تھی۔

انیس قائم خانی کا کہنا ہے کہ 280 لاپتہ، 1400 زیرحراست اور تین ہزار جلاوطن کارکنوں کی فہرست ان کے پاس ہے۔ ایک بار سابق رینجرز سربراہ بلال اکبر نے بتایا تھا کہ جنوبی افریقا میں جلاوطنی کاٹنے والے اکثر مبینہ عسکریت پسندوں نے ان سے رابطہ کیا تھا۔ وہ واپس آنا چاہتے تھے۔

انہوں نے 22 اگست سے قبل ایم کیو ایم قیادت سے اپنی ملاقاتوں کی بھی تصدیق کی جبکہ سابق گورنر عشرت العباد کا بھی ماحول کی سنگینی کم کرنے میں کردار ہوتا تھا۔ ’’مہاجر کارڈ‘‘ دونوں کیمپوں میں اب بھی موجود لیکن حکمت عملی مختلف ہے۔ اگر ان میں مذاکراتی عمل ناکام ہوتا ہے تو شہری سندھ کا حقیقی نمائندہ کون ہے۔ یہ منصفانہ ہونے کی صورت آئندہ عام انتخابات طے کر دیں گے۔

یہ مواد 17 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا

مزید خبریں :