20 نومبر ، 2017
پانچ غریب دوستوں کے قتل کی چھوٹی سی کہانی میں بہت بڑی بڑی کہانیاں چھپی ہیں۔گجرات کے ایک قریبی گائوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں دانش، قاسم، ثاقب، عثمان اور بدرمنیر کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا۔ یہ نوجوان روزگار کی تلاش میں تھے لیکن مناسب روزگار نہ ملنے کے باعث پریشان تھے۔ ان میں سے کسی نے اپنے والد کے ذمہ قرض ادا کرنا تھا، کسی نے اپنی بہنوں کی شادی کرنی تھی، کسی نے چھوٹے بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات کا بندوبست کرنا تھا۔
ایک دن گاؤں کے ایک شخص نے انہیں بتایا کہ وہ ڈیڑھ لاکھ روپے فی کس کے عوض انہیں ایران اور وہاں سے یورپ بھجوانے کا بندوبست کرسکتا ہے۔ ان غریب نوجوانوں کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپے بہت بڑی رقم تھی لیکن ان سب نے ادھر ادھر سے مانگ تانگ کر ڈیڑھ لاکھ روپے کا انتظام کیا اور کل ملا کر ساڑھے سات لاکھ روپے کی ادائیگی کردی۔ ایک دن یہ سب اپنے اپنے والدین کی دعائیں لے کر گجرات سے کوئٹہ روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے اپنی سلفیاں کھنچوائیں اور اہل خانہ کو بھجوائیں۔
کوئٹہ سے یہ دوست تربت کی طرف روانہ ہوئے جہاں سے انہیں مند کے راستے ایران میں داخل ہونا تھا اور ایران سے انہیں غیر قانونی طور پر یورپ بھجوانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کافی دن گزر گئے لیکن ان پانچوں کے اہل خانہ کو کچھ پتہ نہ تھا کہ ان کے بچے کہاں پہنچے ہیں؟ ایک دن گجرات کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں تربت سے ٹیلی فون کے ذریعہ اطلاع آئی کہ گاؤں کے پانچ نوجوانوں کی لاشیں تربت کے قریب پہاڑی علاقے سے ملی ہیں۔ ایک کالعدم علیحدگی پسند تنظیم نے ان نوجوانوں کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔
کچھ دن پہلے اسی علاقے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے پندرہ نوجوانوں کی لاشیں بھی ملی تھیں۔ یہ بدقسمت نوجوان بھی ایران کے راستے یورپ جانے کے لئے گھروں سے نکلے تھے لیکن موت کی وادی میں جاپہنچے۔ اخبارات میں صرف اتنی کہانی شائع ہوئی کہ پنجاب سے ایران کے راستے یورپ جانے کے خواہشمند پانچ نوجوانوں کی لاشیں تربت سے برآمد ہوئیں۔
ان پانچ نوجوانوں کی اپنی اپنی ایک کہانی تھی جو صرف ان کے والدین کو پتہ ہے۔ جن قاتلوں نے ان پانچ نوجوانوں کو گولیوں سے چھلنی کیا ان کی بھی ایک اپنی کہانی ہے لیکن ان سب کہانیوں کے کرداروں میں ایک مشترک چیز ہے۔ قاتل اور مقتول سب ایک ہی طبقے کے لوگ ہیں۔ مارنے والے بھی غریب اور مرنے والے بھی غریب۔ مارنے والوں کو یہ تو پتہ ہے کہ وہ پنجابی بولنے والوں کو قتل کررہے ہیں لیکن یہ پتہ نہیں کہ مرنے والوں کا تعلق پنجاب کے مظلوم طبقے سے ہے ورنہ یہ بیچارے اپنی جان خطرے میں ڈال کر غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کی کوشش نہ کرتے۔
مارنے والوں کا یہ خیال ہے کہ انہوں نے پنجاب میں لاشیں بھیج کر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا بدلہ لیا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ جن غریبوں کے جسموں میں انہوں نے گولیاں اتاریں انہیں تو اپنے جرم کا ہی پتہ نہ تھا وہ تو خود اپنی غربت سے تنگ آئے ہوئے تھے، اگر واقعی پنجاب چھوٹے صوبوں کو لوٹ کر امیر ہوچکا ہے تو کیا وجہ ہے کہ وسطی پنجاب کے دیہاتی علاقوں کے نوجوان اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ایران کے راستے یورپ کی طرف بھاگ رہے ہیں؟
مارنے والوں کو مرنے والوں کی کہانی نہیں معلوم مرنے والوں کو مارنے والوں کی نفرت کے پیچھے چھپی کہانی کا نہیں پتہ۔ مرنے والوں نے ٹی وی چینلز پر بار بار یہی سنا ہوگا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ انہوں نے یہی سنا ہوگا کہ بلوچستان میں امن قائم ہوچکا ہے لہٰذا وہ بغیر کسی خوف کے گجرات سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے تربت کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔
ریاست نے بھی سچ نہیں بولا اور میڈیا بھی سچائی سامنے نہیں لایا، کیونکہ جب کوئی سچائی سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے تو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج پنجاب اور بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ اسے وفاق کی جماعت سمجھا جاتا ہے لیکن یہ وفاقی جماعت بلوچستان کے ناراض نوجوانوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی کہ غربت اور بے روزگاری صرف بلوچستان نہیں پنجاب کے بھی بہت سے نوجوانوں کا مسئلہ ہے۔
یہ وفاقی جماعت اپنی ہر ناکامی کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دے دیتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ اپنی ناکامیاں سیاستدانوں کی مبینہ کرپشن اور بدانتظامیوں کے کھاتے میں ڈال کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے دیتی ہے۔ اصل کہانی یہ ہے کہ بلوچستان کی سڑکوں اور ویرانوں سے ملنے والی گولیوں سے چھلنی لاشیں پنجابیوں کی ہوں یا بلوچوں کی یہ لاشیں کسی ایک مکتبہ فکر یا ادارے کی نہیں بلکہ ہم سب کی اجتماعی ناکامیوں کا نوحہ ہیں۔
یاد کیجئے جب 1970 میں پہلی دفعہ عام انتخابات منعقد ہوئے تھے ، تین بڑی جماعتیں ابھر کر سامنے آئیں۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ، مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی۔ پیپلز پارٹی نے فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کے ساتھ مل کر عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہ ہونے دیا۔ نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں نکلا اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ پیپلز پارٹی نے باقی ماندہ پاکستان کے مرکز کے علاوہ سندھ اور پنجاب میں حکومت بنائی۔
نیشنل عوامی پارٹی نے جے یو آئی کے ساتھ مل کر بلوچستان اور صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا) میں حکومت بنائی لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد نیشنل عوامی پارٹی پر سپریم کورٹ کے ذریعہ پابندی لگوادی گئی۔ یہ وہ پارٹی تھی جس کے لیڈر غوث بخش بزنجو اور ولی خان نے ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا کہ پاکستان مت توڑو۔ اس پارٹی پر پابندی لگادی گئی۔ پابندی کے بعد یہ وفاقی پارٹی مختلف علاقائی پارٹیوں میں تقسیم ہوگئی۔ اس میں سے اے این پی، بی این پی، نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی تحریک اور کئی چھوٹی پارٹیاں نکلیں۔ ایک جماعت پر پابندی سے پاکستان مضبوط نہیں کمزور ہوا۔
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں پیپلز پارٹی نے جے یو آئی، جے یو پی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر بحالی جمہوریت کی تحریک شروع کی تو پیپلز پارٹی میں سے این پی پی بنائی گئی، جے یو آئی کے ٹکڑے ہوگئے، جے یو پی کو توڑا گیا، ایم کیو ایم بنا کر اردو بولنے والوں کو وفاقی جماعتوں سے دور کیا گیا، فرقہ وارانہ تنظیمیں بنا کر قومی دینی جماعتوں کو کمزور کیا گیا۔
پرویز مشرف کے دور میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں سے نئی پارٹیاں بنوائی گئیں۔ وفاقی جماعتیں ٹوٹتی رہیں اور پاکستان کمزور ہوتا گیا۔ آج پیپلز پارٹی سندھ، مسلم لیگ(ن) پنجاب، اے این پی خیبر پختونخوا، بی این پی اور نیشنل پارٹی بلوچستان اور قومی دینی جماعتیں بھی دو صوبوں تک محدود ہیں۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی برائے نام حکومت ہے۔ اس صوبے میں یہ جماعت چند سرداروں کا نام ہے ، یہ سردار پارٹی چھوڑ دیں تو پارٹی ختم ہوجائے گی۔ تبدیلی کے نام پر سامنے آنے والی تحریک انصاف بھی حقیقت میں دو صوبوں کی پارٹی ہے۔
تمام وفاقی جماعتیں کمزور ہیں۔ یہ جماعتیں کمزور ہونے سے وفاق کمزور ہوا ہے اور خدشہ ہے آنے والے دنوں میں یہ جماعتیں مزید کمزور ہوں گی۔ یہ جماعتیں اپنی کمزوریوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر مضبوط نہیں ہوسکتیں۔ اپنی مضبوطی کے لئے ان جماعتوں کو اپنی نظریاتی اور تنظیمی بنیادیں مستحکم کرنی ہوں گی۔ یہ جماعتیں عام لوگوں کی قیادت کو سا منے لائیں گی تو پاکستان بدلے گا بصورت دیگر امیر سیاستدان آپس میں لڑتے رہیں گے اور غریب ایک دوسرے کو مارتے رہیں گے اور یہ کہانی کبھی ختم نہیں ہوگی۔
یہ کالم 20 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔