27 نومبر ، 2017
کراچی (شاہنواز اختر) فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے غیر ٹیکس شدہ رقم پر نظر رکھنے کیلئے ریٹرن فارمز میں ظاہر کی گئی جائیدادوں کی پراپرٹی ویلیو کی تصدیق کیلئے کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
ادارے کے حکام کا کہنا ہے کہ ایف بی آر نے مالی سال 2017ء کے دوران سالانہ ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کی جانے والی معلومات کی بنیاد پر پراپرٹی کے کاروبار میں کالے دھن سے سرمایہ کاری کرنے والے افراد کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
ایف بی آر کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ اسکروٹنی کا عمل رواں سال دسمبر میں سالانہ ریٹرنز داخل کرنے کا عمل مکمل کرنے کے بعد شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ریٹرنز سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر ان لینڈ ریونیو کو ظاہر کی جانے والی معلومات اور فیئر مارکیٹ ویلیو کی بنیاد پار کی جانے والی ادائیگیوں (لین دین) میں فرق معلوم ہوجائے گا۔
ایف بی آر جائیداد کی خرید و فروخت پر وتھ ہولڈنگ ٹیکس وصول کرتا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے ابتدائی 11؍ ماہ کے دوران پراپرٹی کی خرید و فروخت اور متعلقہ لین دین کے نتیجے میں جمع ہونے والے ٹیکس میں 114؍ فیصد اضافہ ہوا اور یہ 15؍ ارب روپے تک جا پہنچا۔
ایف بی آر عہدیدار نے کہا کہ کوئی بھی ایسا لین دین جس میں ظاہر کی گئی رقم کے علاوہ کوئی اور ذریعہ سامنے آیا تو اس ٹیکس دہندہ شخص کا جامع آڈٹ کرایا جائے گا تاکہ اس سے ریکوری کی جا سکے۔
ایف بی آر نے فنانس ایکٹ 2016ء کے تحت دسمبر 2016ء میں پراپرٹی کے لین دین پر ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی تھی جس کے تحت پراپرٹی کے لین دین پر خریدار کو تین فیصد ٹیکس دینا ہوتا ہے اور یہ اس کی حتمی ٹیکس واجبات ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی ویلیویشن اور صوبائی حکام کے متعین کردہ نرخوں کے درمیان فرق پر ایمنسٹی اسکیم اب بھی دستیاب ہے۔ گزشتہ سال اگست میں ایف بی آر نے ملک کے 20؍ بڑے شہروں میں جائیداد کی خرید و فروخت کے حوالے سے ویلیویشن جدول جاری کی تھی تاکہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو باضابطہ طور پر دستاویزی شکل دی جا سکے اور ریونیو جمع کرنے کا عمل تیز اور بڑھایا جا سکے۔
دسمبر 2016ء سے مئی 2017ء تک ایف بی آر نے ایمنسٹی اسکیم کے تحت 71؍ ہزار لین دین کے نتیجے میں 2.07؍ ارب روپے ٹیکس جمع کیا، اس دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایف بی آر اور صوبائی نرخوں کے درمیان فرق کے نتیجے میں 69؍ ارب روپے کے کالے دھن کو سفید کیا گیا۔ ٹیکس ماہرین سمجھتے ہیں کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں تقریباً 7؍ کھرب روپے لگائے گئے ہیں۔
ٹیکس اصلاحات پر عملدرآمد کمیٹی کے رکن عابد شعبان نے کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن میں دی جانے والی اپنی پریزنٹیشن میں کہا تھا کہ ٹیکس حکام کو دسمبر اور مارچ 2016-17ء کے درمیان 336؍ ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ لوگوں کی ایک تعداد بحریہ ٹائون اور ڈی ایچ اے کے قرب و جوار کے علاقوں میں پراپرٹی کی فائلیں فروخت کر رہے ہیں جہاں انکم ٹیکس کے قانون کے مطابق ٹیکس ریٹ صفر ہے۔ انہوں نے پراپرٹی پر ایمنسٹی اسکیم پر تنقید کی اور کہا کہ اس کے نتیجے میں ٹیکس کا ڈھانچہ تباہ ہو رہا ہے۔