ابھرتے ہوئے سیاسی رجحانات

ملک میں پھیلی حالیہ شورش کا اثر آئندہ ہونے والےعام انتخابات میں ہوسکتاہے، ابھرتےہوئےسیاسی رجحان سے غالباً پنجاب میں زیادہ ترحکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اربن سندھ میں ایم کیوایم کو نقصان ہوگا۔ یہ ناصرف مرکزی سیاسی جماعتوں کے لیے بلکہ اُن مذہبی جماعتوں کیلئے بھی ایک چیلنج ہوسکتاہے، جو آئندہ دنوں میں اگلے انتخابات کی تیاری کیلئے جمع ہورہی ہیں۔

دو مذہبی جماعتیں، جماعتِ اسلامی (جےآئی) اورجمعیت علمائےاسلام (جےیوآئی) متحدہ مجلس عمل کی بحالی پر متفق ہوگئی ہیں اور دسمبر کے پہلے ہفتے میں کراچی میں ملاقات کے بعد اس کا باقاعدہ اعلان کیاجائےگا۔

مولانا سمیع الحق کی زیرقیادت دفاعِ پاکستان کونسل اور حال ہی میں بننے والی ملی مسلم لیگ بھی اس ہفتے ملاقات کررہی ہیں، ان کامقصد تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کے بارے میں فیصلہ کرناہے۔ ایم ایم اے، جس نے خیبرپختونخوامیں 2002 کےانتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اور سندھ کے شہری علاقوں پربھی کافی اثرچھوڑا تھا، یہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اورخاص طور پر پاکستان تحریک انصاف پر اثراندازہوسکتی ہے۔

تاہم ایم ایم اے کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب جے یوآئی نےایم ایم اے کی بجائےپی ٹی آئی سے اتحاد کا فیصلہ کیا۔ مولانا سمیع الحق اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے جےیوآئی(س) اور پی ٹی آئی کے اتحاد میں اہم کردار اداکیا۔

تاحال جے آئی نے پی ٹی آئی سے اور نہ ہی جے یوآئی (ف)سے علیحدگی اختیار کی ہے، لیکن ذرائع کے مطابق ایم ایم اے کی بحالی کے بعد دونوں پر پی ایم ایل اور پی ٹی آئی چھوڑنے کیلئے دباؤ ہے۔ اب جبکہ مولانا فضل الرحمٰن حکومت چھوڑنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں توجے آئی کی شورا نے بھی پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کے نتائج کےبارے میں پہلے ہی غور کرلیاہے۔

دوسری جانب جب پی ٹی آئی اور ڈی پی سی ہاتھ ملائیں گی تو یہ عمران خان اور پی ٹی آئی کیلئےآسان نہیں ہوگا، کیونکہ ایم ایم ایل کو جماعت الدعوۃ(جے یو ڈی) کے ساتھ تعلقات کے باعث تاحال خودکو رجسٹرڈ کرانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

نئی پارٹی اور اس کے رجحانات سے 70کی دہائی میں جمعیتِ علمائےپاکستان پر آنے والےکئی عروج یاد آتے ہیں، جب اُن کے پاس مولاناشاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستار نیازی جیسے طاقتور رہنماموجود تھے۔

انتخابات میں زیادہ کامیابی حاصل نہ کرنے کے باوجود جے یوپی ایک بڑی سیاسی طاقت رہی لیکن جےیوپی میں تقسیم اور پاکستان میں افغان جہاد کے نتائج کےباعث اپنا اثرو رسوخ کھوبیٹھی۔ جے آئی کراچی کے امیر حافظ نعیم نے تسلیم کیا کہ یہ نئی جماعت تحریک لبیک اور اس کا بیانیہ مضبوط ہے اور مذہبی ووٹ بینک کی توجہ حاصل کررہی ہے۔

انھوں نے کہا، ‘‘ میں اس کا اثرکراچی میں بھی محسوس کرسکتاہوں۔’’ اس طرح کے حالات پنجاب میں پی ایم ایل(ن) یا سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیوایم اور پی ایس پی کیلئے اچھی خبر نہیں ہوسکتے۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں مسلسل احتجاج اور لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت، چند وفاقی اور صوبائی وزراء کے گھروں پر حملے، حکمران جماعت کے چندایم این ایز اور ایم پی ایزکےاستعفے، یہ سب پی ایم ایل کیلئے پریشانی کاباعث ہے۔

یہ سب پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب سابق وزیراعظم نواز شریف 2 دسمبر کو اپنی سیاسی مہم کا آغاز کرنے والے ہیں، اس میں ممکنہ طورپراب تاخیر ہوجائےگی۔ اس کے اثرات غالباً پانامہ سے بھی زیادہ تباہ کن ہوں سکتے ہیں۔ اب حکمران جماعت کو اس کیلئے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔

نواز شریف نے سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل ہونے کے بعد جی ٹی روڈ مارچ کے ذریعےسیاسی طورپر جو کچھ بھی حاصل کیاتھا وہ فیض آباد میں کھودیا۔ گزشتہ 25 دن کیلئے پی ایم ایل (ن) اور حکومت کوسوائے خودکےکسی کو الزام نہیں دینا چاہیے۔

پی ایم ایل (ن) ایم ایم ایل اور تحریک لبیک کے باعث اپنا ووٹ بینک کھوسکتی ہےکیونکہ نواز شریف کا روایتی ووٹ بینک ‘دائیں بازو’ کاہی رہاہے۔ اب اگر ایم ایم ایل خود کو الیکشن کمیشن میں رجسٹر کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ نواز شریف اور ان کےکشمیری ووٹ بینک کے مکمل طور پرخلاف ہوگا جب کہ تحریک لبیک بریلوی ووٹ کو اپنی جانب کھینچ لےگا۔

نواز شریف کیلئے پریشان کن حالات، جنھیں عمران خان اور تحریک انصاف نےپہلےہی نقصان پہنچایاہے، یہ نئی پیشرفت پی ایم ایل (ن)کےروایتی ووٹ بینک کو کافی متاثرکریں گی۔

پی ایم ایل (ن) اس بحران پر کس طرح قابو پائے گی یہ سابق وزیراعظم نواز شریف کےلیے اصلی چیلنج ہوگا۔ حکومت نے تحریک لبیک کے مظاہرین کے ساتھ آرمی چیف کی مداخلت کے بعد جو معاہدہ کیاہے وہ اور وفاقی وزیرِقانون کا استعفیٰ پہلے چند روز کے دوران بھی ہوسکتاتھا۔ سیاست میں وقت بہت اہم ہےاور معاہدے میں دیرکرکے پی ایم ایل(ن) کی حکومت نے موقع ضائع کردیا۔

ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو نے پہلےاپوزیشن کا انتخابات کرانے کا مطالبہ ماننے سے انکار کیاتھا، جس کے باعث ملک میں کافی بدامنی پھیلی۔ آخرکار انھوں نے یہ مطالبہ مان لیاتھالیکن پہلا موقع ضائع کردیاتھا۔

تحریک لبیک صحیح طورپر اس معاہدے کو اپنی فتح قراردیا، اس نے انھیں وہ سیاسی فائدہ ملا جو اگلے انتخابات سے پہلے ضروری تھا۔ معاہدہ ایک ‘ناکام آپریشن’ کے بعد ہوا، اس سے یہ تحریک نہ صرف پورے پاکستان میں پھیل گئی بلکہ حکومت کیلئے شرمندگی اور نقصان کا باعث بھی بنی۔ گزشتہ چند ماہ میں دو نئی مذہبی جماعتیں قومی افق پر ابھری ہیں۔ ملی مسلم لیگ، جو جماعت الدعوۃ کا سیاسی چہرہ ہےاور تحریک لبیک۔ یہ جماعتیں ہماری سیاست میں اب اپنا اثر دکھا رہی ہیں اور ہم آئندہ انتخابات میں ان کی عملی شرکت دیکھیں گے۔

سینئر صحافی مظہر عبداس کا تجزیہ 28 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا

مزید خبریں :