بلاگ
Time 28 نومبر ، 2017
,

پشاوری آئس کریم کراچی ہی کی ایجاد ہے !

لگ بھگ ایک سال قبل 16 نومبر 2016ء کو انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کے سینٹر فار ایکسلنس ان جرنلزم (سی اے جے) میں "دانشورانہ ملکیتی حقوق کے مؤثر تحفظ کے ذریعے تخلیقی کام اور ترقی کا فروغ" کے موضوع پر ورکشاپ سے خطاب میں یونی لیور پاکستان کے قانونی سربراہ (ہیڈ آف لیگل) عمار نصیر نے ہمارے علم میں اضافہ کیا کہ دانشورانہ ملکیتی حقوق جغرافیائی بھی ہوتے ہیں،  اس کے ساتھ انہوں نے دو مثالیں بھی دیں۔

"سندھ کے لوگوں کو چاہیے کہ اجرک کے ملکیتی حقوق محفوظ کرلیں جبکہ پشاوری آئس کریم چونکہ پشاور کی برانڈ ہے اس لیے پشاور کے لوگوں کو اس کے ملکیتی حقوق محفوظ کرلینے چاہئیں۔"

ورکشاپ سے گھر واپسی پر میرے ذہن میں سوال آیا کہ اگر پشاوری آئس کریم پشاور ہی کی برانڈ ہے تو پھر پشاور میں آئس کریم کی دکان پر " کراچی کی مشہور پشاوری آئس کریم" کیوں لکھا جاتا ہے؟ 

یہ سوال بغیر کوئی جواب ملے ذہن سے محو ہوگیا اور یوں وقت گزرتا گیا، الا یہ کہ کافی عرصے بعد جب ہم نے رہنے کا اپنا ٹھکانہ بدلا تو نیو ایم اے جناح روڈ اور صدر ہمارا راہ گزر ٹھہرا۔

ایک دن اسی راستے ایک بورڈ پر نظر پڑی جس پر لکھا تھا پشاوری آئس کریم "ہماری کوئی دوسری برانچ نہیں ہے"۔ ساتھ ہی 1948ء کی تاریخ لکھی۔ 

تاریخ پر نظر پڑھتے ہی عمار نصیر کے خطاب کے بعد ذہن میں آنے والا سوال ایک دفعہ پھر سر اٹھانے لگا، اور پھر اپنے ساتھی صحافی زین محمود کے ساتھ تاریخ کے اوراق پلٹنے کراچی صدر میں پریڈی اسٹریٹ پر واقع 1882ء میں قائم ہونے والے ایدولجی ڈنشا چیریٹبل ڈسپنسری کے بغل میں واقع پشاوری آئس کریم پہنچ گئے۔

وہاں پشاوری آئس کریم کے پارلر کے مالک زبیر خان سے گفتگو ہوئی، دوران گفتگو پتہ چلا کہ 69 سال قبل اس دکان کی بنیاد رکھنے والے ان کے 90 سالہ والد میر نواز خان روز صبح تھوڑی دیر کے لیے تشریف لاتے ہیں۔

کراچی کے علاقے صدر میں موجود پشاوری آئس کریم کے بارے میں شاید ہی کراچی کا کوئی باسی نہ جانتا ہو، تقسیم ہند سے قبل پشاور سے تعلق رکھنے والے تین بھائیوں بادشاہ خان، میر زمان خان اور فیض خان نے "پشاوری شربت" کے نام سے شربت کی دکان کھولی، جو خوب چلنے لگی۔

"اس وقت تک کراچی میں آئس کریم نہیں بنتی تھی۔ پھر ایک دن سڑک کے اس پار ایک درخت کے نیچے دہلی سے آئے ایک مہاجر ہاتھ سے آئس کریم بنانے لگا،" میرزمان نے سڑک کی دوسری جانب چوہدری فرزند علی قلفی کے ساتھ والے کونے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے بتایا۔

1948ء میں تینوں بھائیوں نے آئس کریم بیچنے کا فیصلہ کیا، ترکیب تیاری پوچھنے کے لیے سڑک کے پار دلی سے آئے شخص کے پاس پہنچے، وقت اچھا تھا، حرص و لالچ جیسی خرابیاں ابھی شاید سرائیت نہیں کرچکی تھی اس لیے انہوں جٹ سے ترکیب بتادی اور یوں شربت کی جگہ آئس کریم اور "پشاوری شربت" کی جگہ "پشاوری آئس کریم "نے لے لی۔ 

اور یوں پاکستان میں پشاوری آئس کریم کی پہلی بار شروعات ہوئی، پھر تین بھائیوں نے خوب محنت کی اور کاروبار چمکا۔ 

پشاوری آئسکریم کے مالکان عملے کے ساتھ

70 کی دہائی میں میر زمان خان کے دونوں بھائی دنیا سے رخصت ہوئے تاہم وہ ضعیف العمری کے باوجود باقاعدہ سے آکر کاروبار پر نظر رکھتے ہیں۔ اگر ملازمین کسی کو آئس کریم فوری فراہم نہ کریں تو وہ آواز دیتے ہیں اور پشتو زبان میں ان کو ڈانتے ہوئے جلدی کرنے کا کہتے ہیں۔

اس کی وجہ تسمیہ میر نواز خان بتاتے ہیں۔

" ہم لوگ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل کراچی آئے اور یہاں شربت کی دکان کھولی، شربت کی دکان کا نام چونکہ پشاوری شربت" تھا اس لیے جب ہم نے کاروبار بدلا تو شربت کی جگہ آئس کریم نے لے لی تاہم پشاوری اپنی جگہ رہا اور اس طرح اس آئس کریم پارلر کا نام پشاوری آئس کریم پارلر پڑ گیا"۔

میر نواز کے مطابق ابتدائی طور پر یومیہ تین سے پانچ کلو آئس کریم بنا کر فروخت کی جاتی تھی، جس کی مقدار بڑھ کر اب کئی من تک پہنچ چکی ہے۔ ہاتھ کی مشین سے تیار کی جانے والی اس آئس کریم کا ذائقہ آج بھی اسی انداز میں برقرار ہے۔ 

میر زمان خان شروع دن سے اس کاروبار کے ساتھ ہیں، ان کے مطابق پشاوری آئس کریم کا رنگ سفید ہے، آئسکریم کی تیاری میں دودھ ، کریم اور خالص میوہ جات سے کی جاتی ہے۔

چھ آنے سے آئسکریم فروخت کرنی شروع کی اور نوے روپے فی کپ فروخت کی جارہی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ میر زمان نے آئسکریم کی ورائٹی میں بھی اضافہ کیا، ایک آئس کریم کے فلیور سے بڑھا کر اب تقریباً 25 مختلف اقسام کی آئس کریم فروخت کی جارہی ہے۔

میر نواز خان کے صاحبزادے زبیر خان زیادہ تر وقت دکان پر موجود ہوتے ہیں، صبح آکر پہلے آئس کریم کی تیاری کے مراحل کا معائنہ کرنا اور معیار کو برقرار رکھنا ان کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔

زبیر خان کا کہنا ہے کہ ان کی دکان پر نامور شخصیات کی آمد کا سلسلہ ایک عرصے سے وہ دیکھ رہے ہیں، سیاسی و سماجی شخصیات ناصرف فیملیز کے ساتھ دکان آتی ہیں بلکہ تقریبات کے لئے بھی خصوصی طور پر آئس کریم کے آرڈر دیئے جاتے ہیں۔ 

جن میں معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی، مفتی نعیم، مرحوم شاہ احمد نورانی، سابق صدر پاکستان پرویز مشرف، ایوب خان، سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، سابق صوبائی وزیر عرفان اللہ مروت، سربراہ ایم کیو ایم پاکستان فاروق ستار، قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان جاوید میاندار، فاسٹ بولر سہیل خان سمیت دیگر نامور شخصیات شامل ہیں۔

زبیر خان دن میں صرف چار گھنٹے سوتے ہیں، باقی وقت دکان پر ہی گزارتے ہیں، زبیر خان کا کہنا ہے شہر میں حالات بہتر ہونے سے کاروبار میں بھی بہتری آئی ہے۔ 

ہفتے کے آخری دو ایام میں ان کی دکان پر غیر معمولی رش ہوتا ہے، فیملیز کے لیے ایک پرسکون اور محفوظ مقام ہے اور رات گئے تک فیملیز یہاں موجود رہتی ہیں اور آئسکریم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

مجھے عمار نصیر سے اتفاق ہے کہ پشاوری آئس کریم کے جملہ حقوق محفوظ ہونے چاہئیں تاہم اب یہ کام کراچی والوں کو کرنا چاہیے کیوں کہ اب واضح ہوچکا کہ پشاوری آئس کریم کراچی ہی کی ایجاد ہے۔

-------------------------------------------------------------------

نعمت خان کراچی سے تعلق رکھنے والے تحقیقی صحافی ہیں۔ وہ @Nkmalazai سے ٹویٹ کرتے ہیں۔

زین محمود بھی صحافی ہیں اور  سیاسی اور سماجی امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔