Time 18 دسمبر ، 2017
بلاگ

بابا جی! یہ سودا نہیں بکے گا

بابا جی کو کبھی بابا کہہ کر مخاطب نہ کرتا لیکن انہوں نے خود کہہ دیا ہے کہ ان کی عزت کرو کیونکہ وہ بابا جی ہیں لہٰذا میں اُنہیں پوری عزت و احترام کے ساتھ بابا جی کہوں گا اور مجھے اُمید ہے وہ بُرا نہیں منائیں گے۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاہور میں پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح گاؤں میں ایک بابا رحمت ہوتا ہے وہ گاؤں کے لوگوں میں تنازعات کا فیصلہ کرتا ہے اور اس کا فیصلہ سب مان لیتے ہیں اسی طرح عدلیہ کا ادارہ قوم کا بابا ہے جس کی عزت کرنا ہر بندے پر فرض ہے آپ اپنے بابے پر شک نہ کریں اُسے گالیاں نہ دیں۔

چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی کہا کہ بابا جی پر دباؤ ڈالنے والا کوئی پیدا ہی نہیں ہوا۔ میری ناچیز رائے میں بابا جی کو گالیاں دینے والوں کو جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ بابا جی کو صرف اپنے فیصلوں کے ذریعہ بولنا چاہئے۔ سیاستدانوں کے الزامات کے جواب میں ایسی تقریر نہیں کرنی چاہئے جو سیاسی بحث و مباحثے کا موضوع بن جائے۔

جب بابا جی بھی سیاستدانوں کی طرح تقریر کرنے لگیں گے تو پھر اُن کی تقریر کے ہر نکتے میں سے نیا نکتہ نکالا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ آپ سے پہلے کون کون سے بابا جی نے کون کون سے چوہدری کے ساتھ مل کر کہاں کہاں ناانصافی کی اور چوہدری سے کیا کیا مراعات حاصل کیں۔ گاؤں کے چوہدری اور بابا جی کی ملی بھگت کی کہانیاں اب ’’لوک داستانیں‘‘ بن چکی ہیں اور ان داستانوں میں بابا جی کا کردار بہت قابل فخر نہیں رہا۔

آپ کو یاد ہو گا کہ کچھ بدتمیز لوگ اکثر باباجی کو یہ طعنہ مارا کرتے تھے کہ بابا سب کے خلاف فیصلہ دیتا ہے لیکن چوہدری کے خلاف فیصلہ نہیں دیتا۔ اس چوہدری کا نام نواز شریف تھا۔ جب نواز شریف نے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مل کر محمد خان جونیجو کو حکومت سے نکالا تو بابا جی نے کہا جونیجو کو ٹھیک نکالا۔ جب نواز شریف نے غلام اسحاق خان کے ساتھ مل کر محترمہ بے نظیر بھٹو کو حکومت سے نکالا تو بابا جی نے کہا بے نظیر بھٹو کو صحیح نکالا۔ جب غلام اسحاق خان نے نواز شریف کو حکومت سے نکالا تو بابا جی نے نواز شریف کی حمایت میں فیصلہ دیدیا اور یوں لاڑکانہ کی بیٹی اور لاہور کے بیٹے کیلئے بابا جی کے رویے میں فرق پر بحث شروع ہوئی۔

پھر جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو حکومت سے نکالا تو بابا جی نے مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیدیا۔ باباجی گاؤں کے چوکیدار کے ڈنڈے سے خوفزدہ ہو گئے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب بابا جی کی کمزوریوں کی وجہ سے چوکیدار اتنا منہ زور ہو گیا کہ اُس نے گاؤں کی ایک بیٹی عافیہ صدیقی پکڑ کر غیروں کو بیچ دی۔ گاؤں کے لوگ دن دیہاڑے لاپتہ ہونے لگے۔

سب جانتے تھے کہ گاؤں والوں کو لاپتہ کون کرتا ہے لیکن بابا جی منہ پر چار اوڑھے بے پروا سوئے رہتے۔ پھر نواب اکبر بگٹی قتل ہو گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دن دیہاڑے دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں۔ چوکیدار کے خلاف شور مچنا شروع ہوا تو بابا جی نے کچھ ہمت پکڑی۔ ایسے فیصلے دینے شروع کئے جن سے بابا جی کی کچھ نہ کچھ عزت بننے لگی لیکن جب بابا جی نے پہلی دفعہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا تو نواز شریف ’’چوہدری دا کھڑاک‘‘ بن گئے۔

جب سے بابا جی نے عمران خان کے حق میں فیصلہ دیا ہے تو نواز شریف آپے سے باہر ہو چکے ہیں اور انہوں نے تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ 

نواز شریف کہتے ہیں کہ عمران خان نے نیازی سروسز لمیٹڈ نامی آف شور کمپنی بنانے کا اعتراف کیا اُنہیں نااہل کیوں نہیں کیا گیا؟ ظاہر ہے نواز شریف اور عمران خان کے خلاف الزامات میں بہت فرق ہے۔ عمران خان نے لندن میں فلیٹ خریدنے اور پھر لندن سے رقم پاکستان لانے کیلئے آف شور کمپنی استعمال کی۔ نواز شریف پر رقم پاکستان سے باہر لے جانے اور اثاثے چھپانے کا الزام ہے۔

نواز شریف کی بیٹی نے چیف جسٹس صاحب کو طنز بھرے لہجے میں کہا ہے ’’مائی لارڈ کیا آپ کا بابا واٹس ایپ کالیں بھی کیا کرتا تھا‘‘ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے واٹس ایپ کالیں تو بعد میں شروع ہوئیں۔ کچھ سال پہلے تک بابا جی کو ٹیلی فون کالیں کی جاتی تھیں اور سابق سینیٹر سیف الرحمان ٹیلی فون پر جسٹس قیوم کو نواز شریف کا پیغام دیا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو کیا سزائیں دینی ہیں۔

ٹیلی فون کالوں کے ذریعہ بابا جی کو ڈکٹیشن دینے والے نواز شریف کو بابا جی نے نااہل قرار دے دیا ہے اور نواز شریف نے لندن میں یہ دھمکی دی ہے کہ عمران خان کیلئے انصاف کا ترازو اور ہے میرے لئے اور ہے، یہ سودا نہیں بکے گا۔

نواز شریف نے تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ تحریک کس کے خلاف چلائیں گے؟ اس تحریک کا مقصد کیا ہو گا؟ وفاق میں بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے پنجاب میں بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ وفاق کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہیں جنہیں نواز شریف لے کر آئے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہیں جنہوں نے بابا جی کے فیصلوں پر شکر اور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ نواز شریف نے بابا جی پر غصہ دکھا دیا لیکن چھوٹے بھائی کی طرف سے بابا جی کی تعریف پر نہیں بولے۔ کیا اُنہیں یقین ہے کہ شہباز شریف اُن کی تحریک میں اُن کے ساتھ چلیں گے؟ کہیں وہ مسلم لیگ (ن) کو ختم کرنے کی تحریک تو نہیں چلانے والے؟

بابا جی کی تقریر سُن کر ایسا لگا کہ باباجی کو زمینی حقائق کا ادراک نہیں اُنہیں گالی گلوچ بریگیڈ کی طرف سے عزت حاصل کرنے کا شوق چرایا ہے اس شوق کو بابا جی کی ایک معصوم خواہش قرار دے کر صرف مسکرایا جا سکتا ہے۔ نواز شریف کی طرف سے تحریک کی دھمکی بابوں کی لڑائی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گی جس میں بابا نواز، بابا عمران، بابا زرداری اور کچھ نوجوان ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوں گے، چوکیدار صرف تماشا دیکھے گا اور کہے گا مجھے بیرونی دشمن سے نمٹنے دو تمہیں بعد میں دیکھوں گا۔ سچی بات یہ ہے کہ نہ تو باباجی کو تقریر کرنی چاہئے تھی اور نہ نواز شریف کو ایک ایسی تحریک چلانے کا اعلان کرنا چاہئے جس کا بنیادی نظریہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔

بابا جی اگر واقعی یہ چاہتے ہیں کہ گاؤں والے اُن کی دل سے عزت کریں تو وہ اپنے ماضی کے گناہوں کا کفارہ ادا کریں جب وہ کبھی چوہدری اور کبھی چوکیدار کے ساتھ مل کر انصاف کا جنازہ نکالا کرتے تھے۔ باباجی کہتے ہیں اُن پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ کیا آج کل سابق ڈکٹیٹر مشرف پاکستان سے باہر بیٹھ کر یہ مطالبے نہیں کر رہا کہ سپریم کورٹ لمبے عرصے کیلئے عبوری حکومت قائم کرے؟ کیا یہ غیر آئینی مطالبہ نہیں؟ بابا جی نواز شریف اور جہانگیر ترین کو سزا دے سکتے ہیں لیکن مشرف کے بارے میں اتنے بے بس کیوں ہیں؟

 بابا جی کو چاہئے کہ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ جو قانون پاکستان کے سیاستدانوں پر لاگو کیا جاتا ہے وہ قانون ایک سابق ڈکٹیٹر پر بھی لاگو ہو سکتا ہے۔ جس دن بابا جی مشرف پر پاکستان کا قانون نافذ کریں گے اُس دن گاؤں کے لوگ نواز شریف کی باتوں پر توجہ دینا بند کر دیں گے۔ نواز شریف حکومت میں آتے ہیں تو انہیں کوئی نظریہ یاد نہیں رہتا۔ حکومت سے باہر آتے ہی وہ نظریاتی بن جاتے ہیں۔ نظریاتی لوگ بہادر ہوتے ہیں۔ بہادر لوگ غلطیوں کا اعتراف کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔

نواز شریف یاد کریں جب 2012ء میں باباجی نے صرف توہین عدالت میں یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا تو انہوں نے باباجی کے فیصلے کو بڑا تاریخی قرار دیا تھا۔ نواز شریف کو اپنی تاریخی غلطیوں کی معافی مانگنی ہو گی بصورت دیگر ان کا سودا نہیں بکے گا۔

سینئر صحافی حامد میر کا کالم 18 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔