19 دسمبر ، 2017
وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔سیاسی مقدمات نمٹاتے نمٹاتے خود عدلیہ کا ٹرائل شروع ہوا۔ عدلیہ کے بعض فیصلے اس قدر متنازع ہوئے کہ منصف اعلیٰ کو سیاسی لیڈروں کے انداز میں اپنی صفائیاں پیش کرنی پڑ رہی ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ واحد حقیقی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ جیسے سیاسی گرو پانامہ کا قضیہ پارلیمنٹ میں نمٹانے اور عدالت کی طرف نہ جانے کی دہائی دے رہے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ یہ خادم بھی التجائیں کررہا تھا کہ سیاستدان اپنے گندے کپڑے دھونے کے لئے سپریم کورٹ کو بطور لانڈری استعمال نہ کریں۔
لیکن میاں نوازشریف کو بھی شوق تھا کہ اپنی صفائی کا سرٹیفکیٹ عدلیہ سے حاصل کریں جبکہ عمران خان نیازی کی سوچ سیاسی ہے اور نہ ان کی سیاست کو ڈکٹیٹ کرنیوالوں کی۔ رہی سہی کسر سراج الحق اور شیخ رشید نے پوری کردی ۔چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف اب سیاست کی مہار سیاستدانوں کی بجائے دیگر اداروں کے ہاتھ میں ہے اور دوسری طرف میڈیا کی رسوائی کے بعد اب عدلیہ کا وقار بھی داؤ پر لگا ہوا ہے ۔یہی فکر اب بابا کو دامن گیر ہوگئی ہے اور اس لئے وہ اپنا کیس عوامی عدالت میں لے گئے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پانامہ کا کیس عدالت میں گیا تو ایک محترم اور دیانتدار جج نے اپنے گھر بلایا۔ جج ہوکر بھی انہوں نے میرے سامنے ہاتھ جوڑے کہ سلیم خدا کے لئے عدلیہ کو تباہی سے بچانے میں ہماری مدد کرو۔ عرض کیا کہ مائی لارڈ مجھ جیسا معمولی اخبار نویس اور تقسیم و ذلیل ہونے والا میڈیا عدلیہ کی کیا مدد کیا مدد کرسکتا ہے۔
کہنے لگے کہ میڈیا ،عدلیہ کی یہ مدد کرسکتا ہے کہ وہ سیاستدانوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ سیاسی کیسز وہاں نہ لے جائیں ۔ جج صاحب نے امریکی سپریم کورٹ کے جج اسٹیفن برئیر (Stephen Breyer) کی کتاب ’’میکنگ آور ڈیموکریسی ورک‘‘ (Making our democracy work) پڑھنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ کس طرح سیاسی کیسز کی سماعت سے عدلیہ متنازع بن جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں اسٹیفن برئیر نے سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لانے سے گریز کی نصیحت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کس طرح امریکہ جیسے ملک میں سیاسی مقدمات کی سماعت سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عدلیہ ابھی امریکی عدلیہ کے مقابلے میں بہت کمزور ہے اور یہاں کی سیاست ابھی وہاں کی سیاست کے مقابلے میں بہت ناپختہ ہے ۔ عدلیہ خالص تکنیکی بنیادوں پر قانون کے مطابق چلے تو پاکستان کا کوئی سیاستدان نہیں بچ سکتا اور مقبول سیاستدانوں کو نااہل کرے تو عدلیہ حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔
یوں یہ کھیل عدلیہ کی کمزوری پر منتج ہوگا۔ جج صاحب کے اس تجزیے سے متاثر ہوکر میں نے سیاسی معاملات کو عدالتوں میں نمٹانے کی مذمت مزید شدت سے شروع کی ۔ خود پانامہ کے کیس پر میڈیا میں زیادہ تبصروں سے گریز کیا اور یہ التجائیں کرتا رہا کہ کیس کے فیصلے تک میڈیا میں اس پر مباحثہ بند کردیا جائے لیکن جہاں عمران خان اور نواز شریف جیسوں نے میدان گرم کیا ہو ، وہاں ہم جیسوں کی کسی نے کیا سننی ہے۔
چنانچہ سیاسی کھیل عدالتوں میں زوروں پر رہا اور عدالتوں کے ساتھ ساتھ ہر روز شام کو ٹاک شوز میں بھی عدالتی کارروائی پر تبصروں کی صورت میں عدالتیں لگی رہیں ۔ پانامہ کیس میں پہلا فیصلہ آیا تو مسلم لیگ (ن) والوں نے جشن منایا اور پی ٹی آئی اینڈ کمپنی نے سوشل میڈیا پر ججوں کو گالیاں دیں۔
ججز تو کیا درمیان میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس بھی گھسیٹے گئے اور نوازشریف کے مخالفین کی طرف سے یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ مذکورہ شخصیات کی ایما پر عدلیہ نے نوازشریف کو بچا لیا۔ دوسرا فیصلہ آیا اور نوازشریف کو اقامہ کی بنیاد پر نااہل کیا گیا تو مسلم لیگ (ن) اور اس کے حامی میڈیا نے عدلیہ پر حملے شروع کئے اور یہ ثابت کرنے لگے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر عدلیہ نے میاں نوازشریف اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ زیادتی کی ۔ پیپلز پارٹی نے بھی پہلے فیصلے کے بعد عدلیہ کو نشانے پر لیا اور دوسرے فیصلے کے بعد عدلیہ کی وکیل بن کر نوازشریف کو طعنے دیتی رہی ۔
مسلم لیگ(ن) نے سراج الحق اور شیخ رشید احمد کو توخاص توجہ نہیں دی لیکن جواب میں وہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئی ۔
ماہرین قانون بتاتے ہیں کہ نہ تو پانامہ کیس کامیرٹ پر سپریم کورٹ کی سطح پر سماعت کا جواز تھا اور نہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے کیس کا ۔ یہ ٹرائل کورٹس، نیب یا پھر الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آنے والے معاملات تھے لیکن چونکہ نوازشریف کے پانامہ کیس کی سماعت ہورہی تھی ، اس لئے توازن کی خاطر عمران خان اور جہانگیر ترین کے کیسز کو بھی سنا گیا۔
نواز شریف کے کیس میں ایک تو خلاف توقع آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کا اطلاق کیا گیا ، حالانکہ سپریم کورٹ کے جسٹس صاحب اس سے پہلے کہہ چکے تھے کہ اگر اس کا اطلاق کیا گیا تو پھر پارلیمنٹ کا کوئی بھی رکن نہیں بچے گااور دوسرا اقامہ کی بنیاد پر سزا دی گئی جس کا کسی بھی پٹیشن میں ذکر نہیں تھا۔
اب مسلم لیگ (ن) کے چاہنے والے اور ہم جیسے کامن سینس سے کام لینے والے قانون سے نابلد لوگوں کو بھی یقین تھا کہ اگر نوازشریف والا کلیہ استعمال ہوگا تو عمران خان کا بچنا ناممکن ہے، لیکن عمران خان کے فیصلے میں بوجوہ اس اصول کا اسی شدت کے ساتھ اطلاق نظر نہیں آتا ۔ لیکن ان کے دست راست جہانگیر ترین کے کیس میں وہی طریقہ اپنایا گیا جو نوازشریف کے کیس میں اپنایا گیا تھا۔
چنانچہ جہانگیر ترین بھی اسی انجام سے دوچار ہوئے جس سے میاں نوازشریف ہوئے تھے ۔ فیصلے کے فوراً بعد تحریک انصاف نے عدلیہ کے کردار سے متعلق سوال اٹھایا اور پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری نے الزام لگایا کہ جہانگیر ترین کو سزا بیلنس کرنے کے لئے دی گئی ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ(ن) نے دو ماہ سے توپیں تیار کر رکھی تھیں اور عمران خان کیس کا فیصلہ سامنے آتے ہی اس کے منہ کھول دئیے ۔ مسلم لیگی سوال کررہے ہیں اور شاید بجا کررہے ہیں کہ عمران خان سے متعلق ان اصولوں کا اطلاق کیوں نہیں کیا گیا جو میاں نوازشریف کے معاملے میں کیا گیا تھا۔
دوسری طرف جہانگیر ترین کا کیمپ کہہ رہا ہے کہ ان سے متعلق اسی طرح جے آئی ٹی کیوں نہیں بنائی گئی جس طرح نوازشریف سے متعلق بنائی گئی تھی ۔ جبکہ ہم جیسے لوگ سوال کررہے ہیں کہ جہانگیر ترین سے متعلق اگر نوازشریف والا کلیہ استعمال کیا گیا تو عمران خان سے متعلق ارسلان افتخار والا رویہ اپنایاگیا۔
جہانگیر ترین اگر انکار کے باوجود اپنے آف شور اکاؤنٹس کے بینی فشری ہیں تو عمران خان اقرار کے باوجود نیازی سروسز کے بینی فشری کیسے نہیں ہیں ۔ نوازشریف اور جہانگیر ترین کے لئے اگر مدت کی قید نہیں رکھی گئی تو عمران خان کے پارٹی فنڈنگز کے معاملے میں پانچ سال کی قید کیوں رکھی گئی ۔
میں قانون اور اس کی نزاکتوں سے نابلد ہوںاور اپنے آ پ کو عدالتی فیصلوں کے تجزیے کا حقدار نہیں سمجھتا ۔ میں جمہوریت پر یقین رکھنے والا سیاست کا طالب علم ہوں ۔ اس حیثیت میں مجھے نوازشریف کی نااہلی کا بھی دکھ ہوا تھا اور اب جہانگیر ترین کی نااہلی کا بھی دکھ ہوا ہے۔
میاں نوازشریف کے خلاف پانامہ فیصلے سے قبل کے دو سال میں نے نوازشریف پر شدید تنقید میں گزارے تھے اور آج بھی ان کے ناپسندیدہ ترین صحافیوں میں شامل ہوں ۔ ان کی ٹیم کی طرف سے میرے خلاف بڑی انتقامی کارروائیاں بھی ہوئی تھیں اور اگر سیاسی راستے سے ان کی رخصتی ہوتی تو مجھے سب سے زیادہ خوشی ہوتی لیکن جس طرح عدالت کے ذریعے ان کی رخصتی سے دکھ ہواتھا اسی طرح جہانگیر ترین کی نااہلی کا بھی دکھ ہوا ہے۔
میں ترین صاحب کا شدید ناقد رہا ہوں اور جتنا میں نے ان کے خلاف لکھا ، شاید ہی کسی اور صحافی نے ان کے خلاف لکھا ہو لیکن زیادتی، زیادتی ہوتی ہے ۔کسی شخص کی اتنی بڑی سیاسی محنت اور سرمایہ کاری کو محض بیلنس کرنے کے لئے ایک ہی دن میں اڑا دینا شاید انصاف ہو لیکن انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔
مجھے محسوس ہورہا ہے کہ انہیں قربانی کا بکرا بنا یا گیا ۔وہ عمران خان کے دست راست تھے اور پی ٹی آئی کو اس مقام تک پہنچانے میں ان کے پیسے اور کوششوں کا حصہ کسی سے بھی زیادہ تھا ۔ لیکن ان کے ساتھ جو رویہ اپنایا گیا ، اس سے لگتا ہے کہ وہ جہانگیر ترین نہیں بلکہ جہانگیر شریف ہوں ۔جیسے وہ پی ٹی آئی کے نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکرٹری ہوں۔ جہانگیر ترین کو جہانگیر شریف بنانے میں دوسروں کے علاوہ شاید خود وہ شخص بھی شریک تھا جن کی خاطر انہوں نے گزشتہ سالوں میں اپنی دولت کو پانی کی طرح بہایا ۔ ایک ثبوت تو اس کا یہ ہے کہ اس فیصلے سے دو ہفتے قبل عمران خان کے لئے جہاز خریدنے کا عمل شروع کیاگیا تھا۔
لیکن اب یہ نوازشریف اور جہانگیر ترین کا نہیں بلکہ عدلیہ کے وقار کا سوال ہے اور پوری قیادت کو سرجوڑ کر عدلیہ کے وقار کو بچانے کے بارے میں سوچنا چاہئے ۔ ایک حل میرے ذہن میں ہے جو خالص غیرروایتی اور غیرقانونی ہے ۔ اس قدر میں بھی جانتا ہوں کہ سپریم کورٹ کی طرف سے حتمی فیصلے اور نظرثانی کے فیصلے کے بعد دوبارہ اسی کیس کی سماعت کا کوئی قانونی راستہ ہے اور نہ روایت موجود ہے ۔ لیکن جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی تو روایت سے ہٹ کر ہے ۔
کبھی سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں بنی جو نوازشریف اور عمران خان کے کیس میں بنی۔ کبھی سپریم کورٹ کے بارے میں وہ لہجہ استعمال نہیں ہوا جو اس وقت ہورہا ہے۔ کبھی سپریم کورٹ کے جج اسی طرح اپنی صفائیاں پیش نہیں کرنے پر مجبور نہیں ہوئے جس طرح اب ہوئے ہیں ۔ کبھی سپریم کورٹ میں زیرسماعت مقدمات پر اسی طرح ٹاک شوز نہیں ہوئے جس طرح اب ہورہے ہیں۔
اب جب کہ سب کچھ خلاف ضابطہ اور خلاف روایت ہورہا ہے تو بحران سے نکلنے کے لئے ایک خلاف ضابطہ اور غیرروایتی مگر ممکنہ حل یہ ہوسکتا ہے کہ نوازشریف، عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی اور اہلیت کے معاملات کا فل کورٹ دوبارہ جائزہ لے ۔ یاپھر دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن) مل کر قانون تبدیل کریں۔
ہوسکے تو فیڈریشن کے معاملات اور سیاسی تنازعات کے تصفیے کیلئے ایک الگ آئینی عدالت بھی قائم کی جائے تاکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو سیاسی مقدمات کے بوجھ سے نجات ملے ۔جب مسلم لیگ پانامہ کیس پر عدالت عظمیٰ کو للکارتی رہے ، جب پی ٹی آئی جہانگیر ترین کے فیصلے پر توازن کے الزامات لگاتی رہے ، جب پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی مل کر حدیبیہ کیس کے فیصلے پر برہم ہوں اور انتخابات کے تناظر میں سیاست گرم ہو تو عدلیہ کی عزت کیسی محفوظ رہے گی۔ اس لئے کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ ان سب کے منہ بند ہوجائیں۔
سینئر صحافی سلیم صافی کا کالم 19 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔