Time 26 دسمبر ، 2017
بلاگ

مولانا، نیازی اور شریف

ایک گالی دیتا ہے ، دوسرا فتویٰ لگاتا ہے اور تیسرا خریدتا یا پھر دباتا ہے۔ طریقہ واردات کا فرق ہے لیکن مزاج عمران خان نیازی ، مولانا فضل الرحمان اور میاں نوازشریف کا ایک ہے۔ 

نعرے مختلف لیکن مقصد تینوں کا ایک یعنی حصول اقتدار ہے۔ ایک انصاف کے نام کو ، دوسرا اسلام کے نام کو اور تیسرا جمہوریت یا ترقی کے نام کو استعمال کرتا ہے۔ نیازی صاحب سے کسی زمانے میں قربت تھی۔ ان سے ذاتی مخاصمت تھی نہ کسی لین دین کا تنازع۔ 

جب اقتدار کی طلب میں نادیدہ قوتوں کا مہرہ بننے لگے اور انقلابی کارکنوں کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنے گرد کرپٹ لوگوں، چاپلوسوں اور روایتی سیاستدانوں کو جمع کرنے لگے تو ان سے اختلاف کیا۔ نتیجتاً وہ گالیوں پر اتر آئے۔ ان کے ترجمانوں نے میرے نام کے ساتھ القابات اور لاحقے سابقے لگا کر کردارکشی شروع کی۔ تب وہ مجھے میاں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان کا ایجنٹ باور کرارہے تھے۔ 

دھرنوں کے دوران نظام اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے رہنے پر میاں نوازشریف اور ان کے ترجمان ہم جیسوں سے بڑے خوش تھے لیکن پھر جب سی پیک کے معاملے پر میں نے بلوچستان، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کا حق مانگنا شروع کیا اور جمہوریت کے نام پر میاں صاحب کے آمرانہ رویہ پر تنقید شروع کی تو احسن اقبال وغیرہ چینیوں کو کہتے رہے کہ میں امریکہ اور انڈیا کا ایجنٹ ہوں۔ تب میاں صاحب اور ان کی جانشین صاحبزادی نے اپنے طریقے سے میرے ساتھ اسی سلوک کا مظاہرہ کیا ، جو عمران خان اور ان کا ٹولہ کرتا رہا۔ 

تاہم اس عرصہ میں میاں صاحب کے ہم نشین مولانا فضل الرحمان صاحب نے مجھے معاف کئے رکھا۔ شکر الحمدللہ کہ اب فاٹا کے معاملے پر مجھ سے متعلق جے یو آئی بھی سنت پی ٹی آئی پر عمل پیرا ہوگئی۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے مجھے اور میرے ادارے کو ہندوستان کا ایجنٹ ثابت کرنےکوشش کی جب کہ مولانا صاحب نے ہم پر امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا۔ 

ہم سے متعلق جو کردار کل تک نعیم الحق ادا کرتے رہے ، آج وہی مولانا عبدالجلیل جان اداکررہے ہیں۔ تب ہمارے خلاف وسائل جہانگیر ترین کے استعمال ہورہے تھے اور سازشی ذہن اسد عمر کا چل رہا تھا ، آج اسی طرح وسائل حاجی غلام علی کے استعمال ہورہے ہیں جبکہ سازشی ذہن مولانا گل نصیب خان کا چل رہاہے۔ جس طرح ہم جیسوں کی کردار کشی کے لئے عمران خان صاحب نے پیپلز پارٹی کے دور میں فردوس عاشق اعوان کی ٹیم کے ایک رکن افتخار درانی کی خدمات لی تھیں ، اسی طرح جے یو آئی نے اب پشاور کے بعض صحافیوں کی خدمات حاصل کی ہیں جن کی جیبیں حاجی غلام علی کی طرف سے گرم کی جاتی ہیں۔ 

اللہ گواہ ہے کہ میں اپنے لئے اس سے بڑا اعزاز کوئی نہیں سمجھتا کہ ایک ہی سکے کے مختلف رخ کی حیثیت رکھنے والے سیاستدانوں کے لئے یکساں معتوب بن گیاہوں۔ میں انتہائی گناہ گار اور کمزور انسان ہوں اور مجبور اقوام اور انسانوں کی جنگ اپنے گناہوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے لڑ رہا ہوں۔ بے ضرر صحافت کے میدان مجھے بھی معلوم ہیں۔ اگر ان چیزوں کا خوف ہوتا تو صحافت کے میدان میں طبع آزمائی کے لئے افغانستان، بلوچستان ، فاٹا ، خارجہ پالیسی، سول ملٹری تعلقات اور طالبان جیسے حساس اور خطرناک ایریاز کا چناؤ نہ کرتا۔ 

تیر کھا کر کمین گاہ پر نظرڈالنے سے جب وہاں دوستوں سے ملاقات ہوتی تو ایک لمحے کے لئے دکھ ضرور ہوتا ہے لیکن اللہ گواہ ہے کہ جب اپنے معاملے میں عمران خان، مولانا فضل الرحمان ، میاں نوازشریف اور محمود اچکزئی کو ایک پیج پر دیکھتا ہوں تو دلی خوشی ہوتی ہے اور اللہ کا شکر بجالاتا ہوں۔ 

گزشتہ دنوں قبل ازوقت انتخابات کے معاملے پر میرا ایک کالم عمران خان صاحب اور ان کے چہیتوں کو اچھا لگا تو اپنے وٹس ایپ گروپ پر اسے جنگ اخبارکے لنک کے ساتھ تقسیم کردیا گیا لیکن اس کالم کو بھی تقسیم کرتے ہوئے خان صاحب کے خاص خدمتگار نعیم الحق نے میرے نام کے ساتھ وہ لاحقہ بھی لگادیا جو خان صاحب اپنے غصے کے اظہار کے لئے میرے نام کے ساتھ لگاتے ہیں۔ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان کے خاص خدمتگار عبدالجلیل جان نے فاٹا کے معاملے پر میرے خلاف ایک پوسٹ کی تو میرے نام کے ساتھ وہی لاحقہ لگایا ہوا تھا جو عمران خان صاحب کا عطیہ ہے۔ یہ اعزاز نہیں تو اور کیا ہے کہ مجھ جیسامعمولی مزدور عمران خان اور مولانا فضل الرحمان کو ایک صفحے پر لے آیا۔

اس تفصیل کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ جس طرح پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن) کے ترجمان یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ میں کسی ذاتی وجہ سے عمران خان صاحب اور نوازشریف صاحب پر تنقید کررہا ہوں ، اسی طرح بعض لوگ فاٹا سے متعلق میرے مقدمہ کو کمزور کرنے کے لئے یہ افواہیں پھیلارہے ہیں کہ جیسے میرے اور مولانا کے مابین کوئی ذاتی جنگ چل رہی ہے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان صاحب کل بھی دوست تھے اور آج بھی ہیں۔ لاکھوں لوگوں کا لیڈر ہونے کے ناطے کل بھی محترم تھے اور آج بھی ہیں۔ میں ان پر خلوتوں میں بھی کئی مرتبہ واضح کرچکا ہوں اور جلوتوں میں بھی۔ کہ چونکہ فاٹا کا معاملہ انسانی زندگیوں ، پاکستان کی سلامتی اور دینی مسئلہ ہے ، اس لئے میں کوئی کمپرومائز نہیں کرسکتا۔ 

میں نے 2000میں پشاور کے مقامی اخبار میں کالم لکھنا شروع کیا اور اس ایک سال میں ایف سی آر کے خلاف اور فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے حق میں تین کالم تحریر کئے۔ ہر سال یہ تعداد بڑھاتا رہا۔ جب فوج فاٹا کے انضمام کی شدید مخالف تھی اور سب سے بڑھ کرا سٹیٹس کو کی علمبردار تھی تب بھی اس کے دباؤ کا سامنا کرکے میں تسلسل کے ساتھ یہی دہائی دیتا رہا اور ہر سال انضمام کے حق میں میری تحریروں اور تقریروں کی شرح بڑھتی گئی۔ میرے کالم ریکارڈ پر ہیں کہ جب ایم ایم اے پرویز مشرف کے ساتھ سترویں آئینی ترمیم تیار کررہی تھی تو میں نے تب بھی یہ مطالبہ کیا کہ اس میں فاٹا کے معاملے کو شامل کیا جائے۔ یہی دہائی میں نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے وقت بھی دی لیکن مولانا صاحب نے ان دونوں مواقع پر اس موضوع کو ہاتھ نہیں لگایا۔ تب بے شک وہ الگ صوبے یا ریفرنڈم کا مطالبہ کرلیتے۔ 

نوازشریف ممنون حسین کوصدر بنارہے تھے تو میرے کالم ریکارڈ پر ہیں کہ جن میں یہ مطالبہ کیا کہ سرتاج عزیز جیسے کسی شخص کو صدر بنایا جائے کہ جو فاٹا کے معاملے کو سمجھتا ہو لیکن مولانا صاحب یا اچکزئی صاحب کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا۔ جب وفاقی کابینہ بن رہی تھی تو میں تکرار کے ساتھ یہ مطالبہ کرتا رہا کہ اس میں کسی قبائلی کو نمائندگی دی جائے لیکن مولانا صاحب نے وزارت کا مطالبہ کیاتو کسی قبائلی کے لئے نہیں بلکہ اپنے اکرم درانی کے لئے۔ پھر ان کے درانی صاحب ایسی کابینہ کے رکن بنے جو تاریخ میں پہلی مرتبہ قبائلیوں کی نمائندگیوں سے محروم تھی۔ 

شمالی وزیرستان میں آپریشن کے آغاز کے وقت گورنر کے مشران کے ساتھ کئے گئے وعدے کی خلاف ورزی کی گئی اور اور اچانک آپریشن شروع کرکے لوگوں کو گھروں سے نکالتے وقت ذلیل کردیا گیا تو میں نے اس کے خلاف کالم بھی لکھے اور پروگرام بھی کئے لیکن مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب اس حکومت میں بیٹھے رہے جن کے ہاتھوں وزیرستان کے لوگ ذلیل ہوئے۔

پھر جب کسی قبائلی کو آئی ڈی پیز کا انچارج بنانے کی بجائے عبدالقادر بلوچ کو انچارج بنایا گیا تو میں نے اس فیصلے کے خلاف کالم لکھے لیکن مولانا صاحب یا اچکزئی صاحب نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ کسی قبائلی کا انچارج بنایا جائے۔ 

اقبال ظفر جھگڑا کو گورنر بنایا جارہا تھا تو میں نےاس کے خلاف آواز اٹھا کر کسی اہل شخص کو گورنر بنانے کا مطالبہ کیا لیکن مولانا صاحب نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ پھر جب میاں نوازشریف فاٹا اصلاحات کے لئے کمیٹی بنارہے تھے تو میں نے اس میں قبائلیوں کو نمائندگی دینے کا مطالبہ کیا لیکن مولانا صاحب نے کمیٹی کی رپورٹ آنے تک اس کمیٹی پر اعتراض نہیں کیا۔پھر جب وہ کمیٹی لوگوں سے مشاورت کررہی تھی تو میں احتجاجاً مشاورت میں شریک نہیں ہوا لیکن جس بھی ایجنسی میں یہ کمیٹی گئی ، ہر جگہ پہلی صف میں مولانا کی جماعت کے لوگ بیٹھے رہے۔ مولانا صاحب زرداری حکومت کا بھی حصہ تھے اور موجودہ حکومت کا بھی حصہ ہیں۔ 

ہر مرتبہ ان کے پاس قبائلی علاقوں سے ایم این ایز آتے رہے لیکن جے یو آئی کے کھاتے میں انہوں نے کبھی قبائلی علاقوں کو وزارت نہیں دلوائی۔ کبھی گورنری طلب کی تو بھی کسی قبائلی کے لئے نہیں بلکہ پشاور میں رہنے والے حاجی غلام علی کے لئے طلب کی۔ کامیابی ملتی ہے یا نہیں لیکن میں قبائلیوں کے لئے وہی حق مانگوں گا جو اپنے لئے حاصل کرچکا ہوں کیونکہ مومن کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ جو کچھ وہ اپنے لئے پسند کرے ، دوسرے بھائی کے لئے بھی وہی پسند کرتا ہے۔ 

تبدیلی میرے موقف میں نہیں محترم مولانا کے موقف میں آئی ہے ۔مولانا میرے معاملے میں عمران خان بنتے ہیں تو خوشی سے بنیں اور وہ میرے معاملے میں جے یو آئی کو پی ٹی آئی بنانا چاہتے ہیں تو بھلے بنا لیں۔ میرے لئے مولانا کل بھی محترم تھے اور آج بھی ہیں ۔گالی کے جواب میں عمران خان کو گالی نہیں دی ہے تو مولانا فضل الرحمان کو کیوں دوں گا ۔ مولانا دوست تھے اور ہیں لیکن دوستی کی خاطر وہ کام کبھی نہیں کرسکتا کہ جس کے نتیجے میں لاکھوں مجبور اور محکوم قبائلیوں کے ہاتھ قیامت کے روز میرے گریبان میں ہوں۔

سینئر صحافی سلیم صافی کا کالم 26 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔