Time 08 جنوری ، 2018
بلاگ

آغاز تو اچھا نہیں

2018 کا آغاز اچھی خبروں کے ساتھ نہیں ہوا۔ سال کے پہلے ہی دن سینئر صحافی عبدالواحد باغی اچانک انتقال کرگئے۔ وہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں نیو ائیر نائٹ کے ہنگامے میں حصہ لے کر گھر پہنچے اور چند گھنٹوں بعد خالق حقیقی سے جاملے۔ 

باغی صاحب ان صحافیوں میں شامل تھے جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں صحافت پر پابندیوں کے خلاف جدوجہد کے دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 

5 جنوری کو بزرگ سیاستدان ائیر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان انتقال کر گئے۔ اصغر خان صاحب کا انتقال ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کے دن ہوا۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر مجھے ان کی وہ تقریر یاد آگئی جو انہوں نے کچھ سال پہلے اسلام آباد میں عمران خان کی کتاب کی تقریب رونمائی میں کی تھی۔

2011 میں عمران خان کی کتاب کی تقریب رونمائی میں اصغر خان صاحب نے عمران خان کے لئے نیک خواہشات کا ا ظہار کیا لیکن تقریر کے آخر میں یہ بھی کہہ ڈالا کہ کبھی کبھی مجھے خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں عمران خان کا انجام بھی وہ نہ ہو جو میرا ہوا ہے۔ 

2018کے پہلے ہفتے میں عمران خان کچھ ایسی افواہوں کی زد میں ہیں جو ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ 2018کے آغاز میں کچھ ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جن کے باعث سینیٹ اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ یکم جنوری کو اس کالم میں خاکسار نے مسلم لیگ(ن) کو خبردار کیا تھا کہ آپ کی پانچ میں سے ایک حکومت خطرے میں ہے لیکن جو کچھ بھی ہوگا آئین کے اندر ہوگا۔ 

2 جنوری کو بلوچستان اسمبلی کے 14 ارکان نے وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اتحاد پیش کردی۔ یہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کی طرف سے نہیں آئی بلکہ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل اتحادیوں کی طرف سے لائی گئی ہے۔ اس تحریک عدم اعتماد کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری کے خلاف ہونے والی بغاوت کامیاب ہوگئی تو سینیٹ کے انتخابات کا انعقاد مشکل ہوجائے گا کیونکہ نیا وزیراعلیٰ صوبائی اسمبلی توڑ دے گا اور یوں مارچ 2018 میں سینیٹ کے انتخابات نہیں ہوسکیں گے۔ 

یہ افواہ بھی گرم ہے کہ اگر سینیٹ کے انتخابات ملتوی ہوگئے تو پھر قومی اسمبلی کے انتخابات بھی ملتوی ہوسکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اپنے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تلاش کررہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی کوس رہی ہے حالانکہ بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پاس ایک بھی نشست نہیں ہے۔ 

لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے بہت سے مبصرین بلوچستان کے زمینی حقائق سے کوئی آگاہی نہیں رکھتے لیکن وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم ا عتماد کے بارے میں زمینی حقائق کو سمجھے بغیر تبصرے کرنے میں مصروف ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا بلوچستان کی مخلوط حکومت کے اندر اچانک کوئی بغاوت ہوگئی ہے یا اس بغاوت کے شعلے پہلے سے سلگ رہے تھے؟ حقائق یہ ہیں کہ اس بغاوت کے شعلے 2015ءسے سلگ رہے تھے۔

ذرا یاد کیجئے! 2015ءمیں سینیٹ کے الیکشن کے دوران کیا ہوا تھا؟ اس الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے دی گئی ٹکٹوں پر پارٹی کے اندر بغاوت ہوگئی تھی۔ 

مسلم لیگ(ن) کی طرف سے کلثوم پروین کو سینیٹ کا ٹکٹ دئیے جانے پر پارٹی کے اپنے ہی ایم پی اے حیران و پریشان ہوگئے تھے۔یہ خاتون 2003میں مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر سینیٹر بنی تھیں۔2009ء میں انہیں مسلم لیگ(ق) نے ٹکٹ دینے سے انکار کردیا تو وہ آزاد امیدوار کے طور پر سامنے آگئیں اور کامیاب ہو کر بی این پی عوامی میں چلی گئیں۔ 

2015 میں سینیٹ کا الیکشن قریب آیا تو کلثوم پروین نے جاتی امرا کے چکر لگانے شروع کئے۔ انہوں نے نجانے کیا چکر چلایا کہ مسلم لیگ (ن) نے بلوچستان میں اپنے پرانے کارکنوں کو چھوڑ کر کلثوم پروین کو ٹکٹ دے دیا۔ 

اس ٹکٹ کی سب سے زیادہ مخالفت بلوچستان اسمبلی کے ا سپیکر جان جمالی نے کی جو مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر الیکشن جیت کر آئے تھے اور اپنی بیٹی ثناء جمالی کے لئے ٹکٹ مانگ رہے تھے۔ ان کی بہن راحت جمالی نے جعفر آباد سے براہ راست انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ 

جان جمالی نے اپنی بیٹی کو آزاد امیدوار کے طور پر کھڑا کردیا جس پر مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت ناراض ہوگئی۔ آصف زرداری نے مسلم لیگ(ن) کے اندرونی اختلافات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ وہ بلوچستان سے اپنا ایک آزاد سینیٹر بنوانے میں کامیاب رہے اور انہوں نے ایم کیو ایم کی حمایت سے رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ بھی بنوالیا، جس دن رضا ربانی چیئرمین سینیٹ بنے اسی رات ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ پڑگیا ا ور زرداری صاحب بھی نئی نئی مشکلات میں پھنسنے لگے۔

بہرحال جان جمالی سے کہا گیا کہ ا سپیکر شپ سے استعفیٰ دو یا تحریک عدم اعتماد کے لئے تیار ہوجاؤ۔ جان جمالی نے استعفیٰ دے دیا ۔ ان کی جگہ ڈپٹی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو قائم مقام اسپیکر بن گئے۔ جب مسلم لیگ(ن) نے راحیلہ درانی کو اسپیکر بنانے کا فیصلہ کیا تو عبدالقدوس بزنجو نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ مسلم لیگ(ق) مخلوط حکومت سے ناراض ہوچکی تھی۔ 

یہ امر قابل ذکر ہے کہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے اراکین اسمبلی کے پاس سادہ اکثریت نہیں تھی۔ بہت سے لوگ آزاد امیدوار کے طور پر جیت کر آئے اور مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے اور یہ پارٹی اسمبلی میں بڑی پارٹی بن گئی، جب ڈاکٹر مالک کی جگہ سردار ثناء اللہ زہری، وزیر اعلیٰ بنے تو مخلوط حکومت میں شامل پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی اہمیت میں اضافہ ہوگیا کیونکہ وہ نواز شریف کے بہت قریب تھے۔ 

بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ(ن) کے اراکین کو یہ شکایت پیدا ہوگئی کہ وزیر اعلیٰ ان کے مسائل پر توجہ نہیں دیتے۔ زیادہ توجہ اچکزئی صاحب کے حلقے کو ملتی تھی۔ حال ہی میں اچکزئی صاحب کے ایک قریبی ساتھی عبدالمجید اچکزئی ایک ٹریفک کانسٹیبل کو اپنی گاڑی تلے کچلنے کے مقدمے میں رہا ہوئے ہیں۔ 

اس رہائی پر میڈیا میں بلوچستان کی حکومت پر شدید تنقید ہوئی اور یہی وہ موقع تھا جب مسلم لیگ(ن) کے ناراض ارکان نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر سردار ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا۔ 

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد ا سمبلی سیکرٹریٹ میں عبدالقدوس بزنجو اور مجلس وحدت المسلمین کے آغا سید رضا نے جمع کرائی۔ دونوں حکومت کے اتحادی تھے۔ بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع کی جماعت جے یو آئی (ف)مرکز میں مسلم لیگ(ن) کی اتحادی ہے لیکن مولانا عبدالواسع نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کردی ہے۔ 

سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل بھی اس تحریک عدم اعتماد کی حمایت کررہے ہیں۔ یہ وہی اختر مینگل ہیں جنہیں 1998 میں نواز شریف نے وزارت اعلیٰ سے ہٹا کر جان جمالی کو وزیراعلیٰ بنایا تھا۔ جب نواز شریف سعودی عرب میں جلا وطن تھے تو اختر مینگل پاکستان میں مشرف کی جیلیں بھگت رہے تھے۔ 

آج مسلم لیگ(ن) اختر مینگل کی منت سماجت کررہی ہے کہ خدا کے لئے سردار ثناء اللہ ز ہری کو بچالو، جب پچھلے چار سال میں اختر مینگل کے ساتھی قتل ہورہے تھے اور لاپتہ کئے جارہے تھے تو مسلم لیگ (ن) کہاں تھی؟ اگر مسلم لیگ (ن) تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر کلثوم پروین کو اپنا ٹکٹ دے سکتی ہے تو اختر مینگل کو آئین کی دفعہ 136کے تحت وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟

وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد مختلف الخیال سیاسی عناصر کا ایڈونچر ہے جس کی ٹائمنگ نے کئی سازشی مفروضوں کو جنم دیا ہے۔ یہ تحریک عدم اعتماد دراصل مسلم لیگ(ن) کی اپنی غلطیوں کا شاخسانہ ہے لیکن تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد کسی بھی صورت میں سینیٹ کے انتخابات کو ملتوی نہیں ہونا چاہئے۔ 

بظاہر وزیراعلیٰ کی طرف سے اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس جاری کرنا بھی ایک آئینی اقدام ہوگا لیکن اگر ایسا ہی آئینی اقدام خیبر پختونخوا اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ نے بھی کردیا تو یہ واضح ہوجائے تاکہ سینیٹ کے انتخابات کے التواء کا واحد مقصد مسلم لیگ(ن) کو سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے سے روکنا ہے۔ 

مسلم لیگ(ن) نے ایک نااہل شخص کو پارٹی کا صدر بنوانے کے لئے اپنی جمہوری اکثریت کا غلط استعمال کیا یہ غلطی مسلم لیگ (ن) کے مخالفین کو نہیں کرنی چاہئے۔

سینئر صحافی حامد میر کا کالم 8 جنوری کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔