09 جنوری ، 2018
کوئٹہ: بلوچستان حکومت کے سیاسی بحران پر صوبے کے وزیراعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری نے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ کے خلاف اسمبلی میں آج تحریک عدم اعتماد پیش کی جانی تھی لیکن اس سے قبل انہیں مستعفی ہونے کے مشورے دیئےگئے۔
وزیراعظم نے گزشتہ روز نواب ثناء اللہ زہری سے ملاقات کی تھی اور انہیں مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا۔
وزیراعظم نے صوبائی قیادت سے استفسار کیا تھا کہ سیاسی صورتحال کو اس نہج پر کیوں پہنچنے دیا گیا؟ انہوں نے مشورہ دیا کہ اسمبلی سے ووٹ کے ذریعے عدم اعتماد کے بجائے پہلے گھر چلے جانا بہتر ہے۔
وزیراعظم نے صوبائی قیادت کو موجودہ صورتحال میں متحد رہنے اور صوبے میں حکومتی معاملات بہتر بنانے کی ہدایت کی ۔
ذرائع کے مطابق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی ثناءاللہ زہری کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا۔
صوبے میں سیاسی بحران اور وزیراعظم کے مشورے کے بعد نواب ثناءاللہ زہری نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔
ثنااللہ زہری سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ کے ساتھ گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی کے پاس پہنچے جہاں انہوں نے اپنا استعفیٰٰ پیش کیا۔
ثناءاللہ زہری نے انتہائی مختصر استعفیٰ لکھا جس میں استعفے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔
گورنر بلوچستان نے نواب ثناءاللہ زہری کا وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ قبول کرلیا۔
گورنر بلوچستان نے استعفے کی کاپی صوبائی اسمبلی کے اسپیکر سمیت چیف سیکریٹری اور دیگر کو بھی بھجوادی جس کے بعد اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کر دی گیا ہے۔
وزیراعلیٰ کے استعفے کے ساتھ ہی صوبائی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے۔
استعفیٰ دینے کے بعد اپنے بیان میں نواب ثناءاللہ زہری نے کہا کہ ‘ محسوس ہورہا ہے کہ کافی تعداد میں اسمبلی اراکین میری قیادت سے مطمئن نہیں، میری خواہش ہے کہ بلوچستان میں سیاسی عمل جاری رہے، میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے صوبے کی سیاست خراب ہو‘۔
انہوں نے کہا کہ ’زبردستی اقتدار سے چمٹے رہنا میرا شیوہ نہیں، میں زبردستی اپنے ساتھیوں پر مسلط نہیں ہوناچاہتا، اقتدار آنے جانے والی چیز ہے، عوام نےمناسب سمجھا تو میں ان کی خدمت جاری رکھوں گا‘۔
ثناءاللہ زہری کا کہنا تھا کہ مخلوط حکومت چلانا اتنا آسان نہیں ہوتا لہٰذا اتحادیوں کا مشکور ہوں۔
ذرائع کے مطابق نواب ثناءاللہ زہری کے مستعفی ہونے کے بعد صوبے کے نئے وزیراعلیٰ کے لیے 2 مضبوط امیدوار سامنے آئے ہیں جن میں صالح محمد بھوتانی اور جان محمد جمالی کے نام شامل ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ صالح بھوتانی اور جان محمد جمالی کو اسمبلی کے اکثریتی اراکین کی حمایت حاصل ہے تاہم اب نئے وزیراعلیٰ کے نام کا فیصلہ ایک دو روز میں ہونے کا امکان ہے۔
صوبے میں سیاسی بحران کے بعد حکومت کے پانچ وزراء، مشیروں اور معاونین خصوصی نے استعفیٰ دیا تھا اور تمام کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان ثناءاللہ زہری نے اپنے ایک مشیر کو عہدے سے برخاست بھی کیا۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں سیاسی بحران کے حل کے لئے وزیراعظم گزشتہ روز کوئٹہ پہنچے تھے جہاں ان کے طلب کیے جانے پر مسلم لیگ (ن) کے اراکین ملاقات کے لئے نہ آئے جس کے بعد وزیراعظم نے کوئٹہ میں اپنا قیام طویل کیا اور وہ آج صبح واپس اسلام آباد پہنچے۔
بلوچستان اسمبلی میں عدم اعتماد تحریک کی تاریخ
1970 میں بلوچستان ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بحیثیت صوبہ وجود میں آیا اور 1972 میں پہلی صوبائی اسمبلی تشکیل دی گئی اور اس وقت سے لے کر آج تک تین بار وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوچکی ہے۔
ان وزرائے اعلیٰ میں میر تاج محمد جمالی مرحوم، سردار اختر جان مینگل اور موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری شامل ہیں۔
میر تاج محمدجمالی اور سردار اختر جان مینگل کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں جمع ہوئی تو وہ فوری طور پر وزارت اعلیٰ مستعفی ہوگئے۔