09 جنوری ، 2018
صوبہ سندھ میں 7 برس کے دوران اسکول طالبات کی تعداد میں ایک لاکھ 6 ہزار 828 کی کمی کا انکشاف ہوا ہے۔
محکمہ تعلیم سندھ کے ذیلی ادارے ریفارم سپورٹ یونٹ کی سالانہ اسکول شماری رپورٹ کے مطابق صوبے کے سرکاری اسکولوں میں گزشتہ سات سال کے دوران طالبات کی تعداد میں ایک لاکھ 6 ہزار 828 کی کمی واقع ہوئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ میں 2011 میں پرائمری ایلمنٹری سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کی کل تعداد 48 ہزار 914 تھی جو کم ہو کر 42 ہزار 383 رہ گئی ہے۔
گرلز اسکولوں کی تعداد 7 ہزار 801 تھی جو کم ہو کر 5ہزار 385 رہ گئی جب کہ اسکولوں میں طالبات کی تعداد 17 لاکھ 58 ہزار 853 تھی جو کم ہو کر 16 لاکھ 52 ہزار 25 رہ گئی ہے۔
محکمہ تعلیم نے تعداد میں کمی کی وجہ غیر فعال اسکولوں کی بندش کو قرار دیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بوائز اسکول 11 ہزار 732 سے کم ہو کر 6 ہزار 70 رہ گئے اور 2011 میں طلبہ کی تعداد 24 لاکھ 63 ہزار 307 تھی جو کہ بڑھ کر 25 لاکھ 77ہزار 103 ہوگئی ہے جب کہ مجموعی طور طلبا کی تعداد 42 لاکھ 22ہزار 160 سے بڑھ کر 42 لاکھ 29 ہزار 128 ہوگئی ہے۔
سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور 2011 میں اساتذہ کی تعداد ایک لاکھ 46 ہزار 103 تھی جو بڑھ کر ایک لاکھ 50 ہزار 787 ہوگئی ہے۔
تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود سندھ میں 23 ہزار سے زائد اسکول بجلی سے محروم ہیں۔
سال 2017 میں بھی سندھ کے ہزاروں اسکول بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور رپورٹ کے مطابق سندھ کے 16 ہزار 359 اسکولوں کی چار دیواری جب کہ 15 ہزار 478 اسکولوں میں بیت الخلاء ہی نہیں ہیں۔
18 ہزار 128 اسکولوں میں پینے کا پانی جب کہ 23 ہزار 235 اسکولوں میں بجلی اور 31 ہزار 982 اسکولوں میں کھیل کا میدان موجود نہیں۔
2 ہزار 10 سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں سے 942 اسکولوں میں سائنس کی لیب، ایک ہزار 89 اسکولوں میں بائیولوجی کی لیب، ایک ہزار 114 اسکولوں میں کیمسٹری اور ایک ہزار 719 اسکولوں میں فزکس کی لیب جب کہ ایک ہزار 374 اسکولوں میں کمپیوٹر لیب موجود نہیں ہے۔
اسی طرح 42 ہزار 383 اسکولوں میں سے 41 ہزار 649 اسکولوں میں لائبریری بھی موجود نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق صرف 13 ہزار 891 اسکولوں کی عمارتیں کارآمد ہیں جب کہ 15 ہزار 978 اسکولوں کو مرمت کی ضرورت ہے۔
سالانہ اسکول شماری رپورٹ میں 6 ہزار 567 اسکول کی عمارتوں کو خطرناک قرار دیا گیا ہے اور 4 ہزار 910 اسکول ایسے ہیں جن کی عمارت ہی نہیں یا ان کی چھت موجود نہیں ہے۔
دوسری جانب ماہرین تعلیم محکمہ تعلیم میں تنزلی کی وجہ محکمہ تعلیم میں غیر تجربہ کار افسران کی تعیناتی و سیاسی مداخلت کو قرار دیتے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے میں جمال مصطفی سید اور عزیز عقیلی کو مختصر عرصے میں سیکریٹری تعلیم تعینات کیا گیا تھا جو کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔
ان کے بعد سیکریٹری بورڈ اینڈ یونیورسٹی کے ناکام ترین سیکریٹری اقبال درانی کو سیکریٹری اسکولز تعینات کردیا گیا جو کئی ماہ گزرنے کے باوجود تعلیم کی بہتری کے لیے کوئی اقدامات نہیں کرسکے ہیں۔