13 جنوری ، 2018
زخم بھرچکے ہیں، لیکن وہ اب بھی اسپتال میں زیرِ علاج ہے، زیادہ تر راتوں میں، وہ گھنٹوں تک سوتی رہتی ہے، لیکن جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ بے قابو ہو کر چیخنے لگتی ہے۔ وہ کسی کو نہیں پہچانتی، نہ اپنے والدین کو اور نہ ہی چھوٹے بہن بھائیوں کو۔ نرسیں اسے زبردستی کھانا کھلاتی ہیں۔ گذشتہ 2 ماہ کے دوران 6 سالہ کائنات بتول نے بمشکل ہی کوئی بات کی ہو۔
11 نومبر 2017 کو شام 6 بجے کائنات قریبی دکان سے دہی خریدنے نکلی تھی، لیکن واپسی پر گھر سے محض چند قدم کے ہی فاصلے سے وہ لاپتہ ہوگئی۔ اس کے پریشان والد احسان، کچھ پڑوسیوں اور دوستوں نے فوراً قصور پولیس کو اطلاع دی۔
24 گھنٹے کے بعد انہیں ایک فون کال موصول ہوئی کہ کائنات کے حلیے سے مشابہہ ایک بچی قصور کی مرکزی ہول سیل مارکیٹ کے قریب کچرہ کنڈی سے ملی ہے۔ جب والدین وہاں پہنچے تھے تو کائنات انہیں بے ہوشی کی حالت میں ملی، اس کا لباس پھٹا ہوا تھا جبکہ چہرے پر زخموں کے نشانات تھے۔
قصور، پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے محض ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے، جہاں 2015 سے متواتر بچوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات سامنے آرہے ہیں، جب ایک منظم گروہ نے 300 سے زائد بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی تصاویر اور ویڈیوز بنائی تھیں۔ پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے مطابق گذشتہ برس 12 بچوں کو اغواء کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، جن میں سے کچھ بچے زندہ ہیں اور کائنات بتول ان ہی میں سے ایک ہے۔
کائنات کے والد نے جیو نیوز سے گفتگو میں بتایا، 'جس دن ہمیں کائنات ملی، ہم اسے لاہور کے چلڈرنز اسپتال لے گئے، جہاں وہ 2 جنوری تک زیرِ علاج رہی، جس کے بعد ڈاکٹروں نے کہا کہ بچی کو گھر لے جانا بہتر ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ ٹھیک نہیں ہے'۔
6 سالہ کائنات اس وقت قصور کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔
بچی کے والد احسان کے مطابق 'ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں کائنات کے جسم پر تشدد کے نشانات ملے ہیں'۔
کائنات کے والد ایک دیہاڑی دار مزدور ہیں اور جب سے ان کی بیٹی انہیں اس حال میں ملی ہے، انہوں نے ایک روپیہ نہیں کمایا۔ انہوں نے بتایا، 'میرے کچھ دوست میری مالی امداد کر رہے ہیں، ورنہ میں اسپتال کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں تھا'۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کائنات کو ذہنی کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے۔
اگرچہ پولیس اس بات کا تعین نہیں کرسکی کہ یہ جنسی تشدد کا کیس تھا یا نہیں، تاہم کائنات کے والد کو ان کی کوششوں کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں۔ پولیس کے سینئر افسران اکثروبیشتر ادویات کی خریداری میں ان کی مدد کردیتے ہیں جبکہ دیگر انہیں فون کرکے ان سے بچی کی خیریت دریافت کرتے رہتے ہیں۔
کائنات کے والد کا کہنا تھا کہ انہوں زینب کے والدین کے دکھ کا اندازہ ہے، جنہیں ان کی 7 سالہ پھول سی بچی کی لاش کچرے کے ڈھیر سے ملی، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'یہ وہی شخص ہے، جس نے کائنات کے ساتھ بھی یہ سب کیا تھا'۔