15 جنوری ، 2018
کیویز نے تیسرے ون ڈے میں پاکستانی شاہینوں کے پر کتر کر 5 ون ڈے پر مشتمل سیریز 0-3 سے جیت لی۔
پاکستان ٹیم کو اس مشکل صورتحال سے دوچار تو ہونا ہی تھا کیونکہ چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد قومی ٹیم اور کرکٹ بورڈ نے بزعم ِخود یہ سمجھ لیا تھا کہ اب ان کی ٹیم ناقابل تسخیر بن گئی۔ حد سےزیادہ خود اعتمادی اور سہل پسندی قومی ٹیم کو لے ڈوبی۔ کسی بھی ٹیم کے لئے صرف چیمپئن بننا کافی نہیں ہوتا بلکہ اپنی کارکردگی کو برقرار رکھنا بہت اہم ہوتا ہے۔
قومی ٹیم کو دیار غیر میں نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرے ون ڈے میں بھی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا، بیٹنگ لائن ایک بار پھر بری طرح فلاپ ہوئی اوربولنگ میں محمد عامر، حسن علی، فہیم اشرف کا جادو بھی نہ چل سکا۔
اس سے قبل دو میچز میں میزبان ٹیم نے مہمان ٹیم کی خوب آؤ بھگت کی۔ ویلنگٹن میں کھیلے گئے پہلے ایک روزہ میچ میں کپتان سرفراز احمد نے کیوی کپتان کین ولیم سن کا کیچ چھوڑ دیا جو کہ ایک بڑی غلطی تھی۔
341 رنز کا ہدف پورا کرنے میں بیٹسمینوں کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ ایک طرف کیوی بولرز نے پاکستانی بیٹسمینوں کی ایک نہ چلنے دی تو دوسری طرف بارانِ رحمت بھی قومی ٹیم کے لیے زحمت بنی۔
پاکستان نے6 وکٹوں کے نقصان پر صرف 166 رنز ہی بنائے تھے کہ بارش شروع ہوگئی اوراس کے بعد میچ شروع نہ ہوسکا۔ ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت قومی ٹیم کا رن ریٹ کم تھا اس طرح نیوزی لینڈ نے 61 رنز سے پہلی کامیابی اپنے نام کی۔
دوسرے میچ میں بھی صورتحال مختلف نہ تھی۔ پاکستان نے نیوزی لینڈ کو جیت کے لیے 247 رنز کا ہدف دیا لیکن بارش کی مداخلت کی وجہ سے میچ کو 25 اوورز تک محدود کردیا گیا اور نیوزی لینڈ کو کامیابی کے لیے 151 رنز کا ٹارگٹ ملا جس کو اس نے دو وکٹوں پر پورا کیا۔
کرکٹ شائقین نے یہ کہہ کر اپنا دل بہلالیا کہ بارش کی وجہ سے پاکستان کو دو میچز میں ناکامی ہوئی لیکن پاکستان ٹیم تیسرے ون ڈے میں جوابی وار کرتے ہوئے ضرور کم بیک کرے گی مگربقول شاعر
دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
تیسرے ون ڈے میں تو قومی ٹیم نے نیوزی لینڈ میں کسی بھی انٹرنیشنل ٹیم کا دوسرا کم ترین اسکور 74 رنز بناکر تاریخ میں نام لکھوا دیا۔ڈونیڈن میں بارش بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی موسم خراب تھا کہ جس کو ٹیم کی شکست کا ذمہ دار ٹہرایا جاتا۔
نیوزی لینڈ کے حسب ِروایت کھیل پیش کرکے ٹیم کو کامیابی کےلیے 257رنز کا ہدف دیا لیکن 16 رنز کے مجموعی اسکو ر پر آدھی سے زائد ٹیم پویلین لوٹ گئی۔
ٹرینٹ بولٹ، کولن منرو اور لوکی فرگیوسن نے 74 رنز پر پاکستانی ٹیم کی بساط ہی لپیٹ دی۔ اظہر علی، فخر زمان، بابر اعظم، محمد حفیظ اور شعیب ملک بھی بیٹنگ لائن کو مستحکم نہ کرسکے۔
رہی بات کپتان سرفراز کی تو کوئی بھی کپتان یا فرد واحد ٹیم کو فتح سے ہمکنار نہیں کرسکتا جب تک اس کی ٹیم کپتان کا بھرپور ساتھ نہ دے۔
تمام میچوں میں پاکستان کی ناکامی کی وجہ بیٹنگ لائن ہے۔ سعید انور اور عامر سہیل کے بعد پاکستان کو ایسی کوئی اوپننگ جوڑی نہیں ملی جو ٹیم کی پوزیشن مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرے۔
ٹاپ آرڈر کی ناکامی ٹیم کا ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر قابو پانے میں کرکٹ بورڈ، سلیکٹرز اورکوچ بھی ناکام ہیں۔
پوری قوم گزشتہ برس پاکستان ٹیم کی پہلی بار چیمپئنز ٹرافی جیتنے پر بہت مسرور تھی، ہر طرف لوگ کھلاڑیوں (شاداب خان، فخر زمان، حسن علی)اور قائد سرفراز کی کارکردگی پرخوشی سے نہال بھی تھے۔
حکومت، کرکٹ بورڈ و دیگر بڑے بڑے اداروں کی جانب سے قومی ٹیم پر انعامات کی بارش جاری تھی۔ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی اور انہیں انعامات سے نوازنا اچھی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کو اپنی فٹنس اور پریکٹس پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت تھی۔
حالانکہ بعض ناقدین نے اپنے تجزیوں میں کرکٹ بورڈ کی توجہ اس جانب دلائی تھی کہ اگر کھلاڑی فٹنس اور پرفارمنس کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئے تو کہیں 2017 کی چیمپئنز ٹرافی کی ٹیم ریل کی پٹری سے ہی نہ اتر جائے اور آج قومی ٹیم کا یہی حال ہے۔
قومی ٹیم چیمپئنز ٹرافی کے بعد سری لنکا کے خلاف سیریز میں ایکشن میں نظر آئی۔ متحدہ عرب امارات جس کو پاکستان کا ہوم گراؤنڈ کہا جاتا ہے، وہاں بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کو سری لنکا جیسی ’’بچہ‘‘ ٹیم کے ہاتھوں ٹیسٹ سیریز میں0-2سے ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز پاکستان کے نام رہی۔
پاکستان ٹیم کا یہی حال رہا ہے تو بقیہ دو میچز میں بھی پاکستان کا اللہ حافظ ہے۔ پاکستان اس وقت آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں 98 پوائنٹس کے ساتھ چھٹی پوزیشن پرموجود ہے جبکہ بنگلہ دیش 92 پوائنٹس کے ساتھ ساتویں نمبر پرہے ۔مزید شکستوں کی وجہ سے پاکستان کی ایک روزہ رینکنگ بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔